تعلیم سے رغبت پیدا کر نے کے کار گر طریقے
فاروق طاہر
حیدرآباد
موبائل: 9700122826
شعور کو مہمیز کر نے والے عناصر میں تعلیم ،یا داشت ، عقل سلیم(کامن سینس ) اور اضطراری افعال Reflex Action))کے علا وہ تجربہ کو کلیدی حیثیت حا صل ہے۔اکتساب اور تجربہ شعور کے فروغ میں اہم کردار ا نجام دیتا ہے۔ انسان علم اسی لئے حا صل کر تا ہے کہ اس کا شمار سماج کے با شعور اور سمجھدار افراد میں ہو۔ تعلیم ،یا داشت ، عقل سلیم(کامن سینس ) اور اضطراری افعال یہ چار عناصر تجربہ سے با ہم ہو کر طلباء کے شعو ر (ذہانت) کی سطح کو ظاہر کر تے ہیں۔
یہ با ت نہایت ہی اہمیت کی حا مل ہے کہ ذہا نت کو ئی عطائی شئے نہیں ہے بلکہ اکتساب کے ذریعہ اس کا حصول ممکن ہے۔ پیدا ئشی طور پر جا نوروں میں انسان سے زیادہ ذہا نت پا ئی جا تی ہے۔لیکن وقت کے ساتھ جانوروں کیذہا نت جمود کا شکا ر ہو جا تی ہے جب کہ انسان کی ذہا نت عمر اور وقت کے سا تھ ساتھ تر قی پذیر رہتی ہے۔اگر انسا نی ذہن بھی جمود کا شکا ر ہو جائے تو انسا ن اور جا نور میں کوئی خا ص فر ق نہیں رہے گا۔ جا نور اپنی زندگی کا 70 فیصد حصہ غذا کی تلاش میں صرف کر تے ہیں جب کہ انسان اس کا م کے لئے صرف دس فیصد وقت صر ف کر تا ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج بھی چند انسان جا نوروں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں وہ تعلیم(کام) کو ایک مشغلے شوق و ذوق کے بغیر ایک ذمہ داری کے طور پر انجام دے رہے ہیں اورپر امید ہیں کہ کو ئی معجزہ ان کے مستقبل کو بدل دے گا۔ان کی زندگی جوش و ولولے سے عاری ہے ان میں خواہش اور دلچسپی نہیں پائی جا تی۔خو اہش اور دلچسپی دو مختلفچیزیں ہیں۔ ایک ڈاکٹر (طبیب) یا انجنیئربننے کے خو اہش مندطالب علم کے لئے سائنسی علوم سے رغبت نا گزیر ہے ۔بد قسمتی سے طلباء اس امر کو دلچسپی کے بجائے ایک ذمہ داری کے طور پر لیتے ہیں ان کے پا س خواہش تو ہوتی ہے لیکن ان میں دلچسپی اور ذوق و شوق کا فقدان پا یا جا تا ہے۔انسان اور حیوانوں کے ما بین کئی امتیازات پا ئے جا تے ہیں جن کومختصراً تین زمروں یا در جا ت میں تقسیم کیا گیا ہے۔(۱) ذہانت(شعور)و استدلال(۲) احساس کی دولت(۳)جدید تر قی یافتہ مہارتوں اور تکنیک کا استعمال ۔مذکور ہ تین اوصاف انسانوں (طلباء) میں مختلف تناسب میں پائے جا تے ہیں لیکن جب یہ اوصاف طلبا ء میں مطلوبہ تناسب میں ہوں تو فقیدالمثال کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ایک طالب علم لازمی استعدادوں سے عاری ہو کر صرف خواہش اور شعو ر کے بل پر کامیابی حا صل نہیں کر سکتا ۔کامیابی کے لئے خواہش (جذبہ و ولولہ)،صلاحیت اور ذہانت(شعور) کا ہو نا لازمی ہو تا ہے۔ذہن جب کسی شئے کیخواہش کر تا ہے تب ذہا نت اس کی تکمیل کے راستے تلاش کر تی ہے۔خواہش ،صلاحیت اور ذہا نت ہر طالب علم میں کسی نہ کسی تنا سب میں پائی جا تی ہے لیکن جو طالب علم ان عنا صر کو مطلوبہ تنا سب میں اپنے آپ میں جمع کر لیتا ہے وہ صف اول کا انسان (طالب علم) بن جا تا ہے۔ ہر طالب علم میں اعصابی نظام یکساں ہو تا ہے۔پڑھایا گیا موادمساوی رفتار سے تما م طلباء کے ذہنوں تک پہنچتا ہے لیکن طلباء دلچسپی کے فقدان کے با عث اس کو قبول نہیں کر پا تے مضمون کی ذہن تک رسائی کا معاملہ اعصابی نظام سے نہیں بلکہ طلباء کی دلچسپی سے تعلق رکھتا ہے۔اکثر والدین بچوں کے با رے میں تین طرح کی شکایا ت کر تے ہیں (۱)میر ا بچہ بہت ہی ذہین ہے لیکن وہ اپنی توجہ نہیں جٹا پا تا ہے۔(۲)میرا بچہ بہت اچھا پڑھتا ہے لیکن اسے یا د نہیں ر ہتا۔(۳)میرا بچہ عمدہ تعلیمی مظاہرہ کر سکتا ہے لیکن یہ پڑھتا نہیں ہے۔فطر ی طور پر والدین کے ان سوالات میں کو ئی بنیادی فر ق نہیں پا یا جا تا ۔تینوں سوالات ایک جیسے ہی ہیں ۔والدین اپنے بچوں کے خرا ب تعلیمی مظاہرے کی پردہ پوشی کے لئے مذکورہبہانوں کا سہارا لیتے ہیں۔طلبا ء کی ذہا نت پر اثر انداز ہو نے والے عوامل میں بیشک صحت ،غذا،گھر اور اس کے آس پا س کا ما حول،دوست اور تعلیمی ما حول قابل ذکر ہیں لیکنان میں طا لب علم کی ذہنی آمادگی(mind set) ہی سب سے اہم ہے۔اکثر طلباء مغالطے میں رہتے ہیں کہ دماغی خرابی ،جینس(genes) یا اعصابی نظام کی خرا بی کی وجہ سے وہ بہتر تعلیمی مظاہر ہ نہیں کر رہے ہیں۔یہ ایک خود ساختہ مفروضہ اور خود فریبی ہے۔ طلبا ء ا پنی عدم دلچسپی کومختلف بہانوں کے ذریعہ چھپا نے کی کو شش کر تے ہیں۔پیدائشی طور پر کو ئی کمعقل نہیں ہو تا ہے۔بچوں کی ذہنی نشو ونما میں صحت،غذا،ماحول اور بنیادی تعلیم کسی حد تک ذمہ دار ہو تی ہے لیکن ان میں سب سے اہم عنصر طا لب علم کا ذہنی رجحان (mind set) ہی ہو تا ہے۔کوئی بھی اس وقت تک ذہنی کمزوری اور یا دا شت کی خرا بی کا بہانہ نہیں کر سکتا چہ جائیکہ وہ کسی ذہنی بیماری یا ذہنی چوٹ کا شکارنہ ہو۔اسپائی ڈر مین کی کہانی کو طالب علم فوراً دہرانے لگتے ہیں پھر کس طر ح طلبا اور اولیائے طلبا یہ سوچتے ہیں کہ بچے یا داشت کی خرابی یا ذہا نت کی کمی کا شکا ر ہیں۔ اکثر طلبا اور اولیائے طلبا ابتدا ہی سے تعلیم میں عدم دلچسپی کو خو د سا ختہ طور پر دماغ کی عدم کارکردگی سے تعبیر کر تے ہیں۔مینڈ سٹ کی کیفیت کواس واقع سے واضح کیا جا سکتاہے کہ ایک شخص ما ہر نفسیات سے رجوع ہو ا اور شکایت کی کہ گزشتہ روز اس کا انتقال ہو چکا ہے۔ما ہر نفسیات پہلے تو اچھنبے میں پڑ گیا پھر سنبھل گیا کیوں کہ آئے دن اس کو اس طر ح کے مر یضوں سے سا بقہ پڑتے رہتا تھا۔کا فی دیر تک اس شخص کو سمجھانے کی کوشش کر تا رہا جو کہ بے فیض تھا۔تنگ آکر اس نے ایک سوئی مریض کی انگلی میں چبھاکر اس کو اپنے انگوٹھے سے پکڑ لیاتاکہخون کے اخراج کو روکا جا سکے اور پوچھا کہ بتاؤ کیا مردوں میں خون گردش کر تا ہے۔مریض یقین سے کہتا ہے کہ بالکل نہیں۔ڈاکٹر اپنا انگوٹھا اس کی انگلی سے الگ کر تا ہے اور کہتا ہے کہ دیکھو تمہاری انگلی سے خون کا اخراج ہو رہا ہے اور یہ اس با ت کا ثبوت ہے کہ تم زندہ ہو۔مریض کسی قدر الجھن کا شکار ہو گیا دو چار مر تبہ ما ہر نفسیات پر نظر دوڑا یا پھرکہا کہ جنا ب ابھی ابھی مجھ پر ایک آفاقی حقیقت کا انکشاف ہو ا ہے کہ مردوں میں بھی خون گردش کر تا ہے۔ا س واقع سے معلوم ہو تا ہے کہ اس شخص کو زندہ رہنے سے زیادہ مردہ رہنے کے تصور میں سکون ملتا ہے اور وہ اس کے علاوہ کسی بھی حقیقت کو تسلیم کر نے سے منکر ہے۔بالکل اسی طرح ایک طالب علم اور اس کے والدین کو اپنی کوتا ہیوں کی پر دہ پوشی کے لئے دماغی کمزوری ،یا داشت کی خرابی کے لبا دے میں سکون و اطمینان حا صلہو تاہیجب کہ حقیقتاً عدم توجہ اور ذہا نت کی خرابی جیسی بیماریوں کی اصطلاحات میڈیکل سائنس میں نہیں پا ئی جا تی۔بغیر کسی سخت محنت و جستجو صرف دماغ کی کمزوری جیسی سوچ میں اس کو سکون نصیب ہو تا ہے یہ خود فریبی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ محنت کے بغیر کوئی شئے حا صل نہیں ہوسکتی لیکن محنت کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے بچوں میں دلچسپی کو فر وغ دینا ضروری ہے۔دلچسپی کی فقدان کے با عث بچے تعلیم کو ایک بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔یہ والدین کا فریضہ ہے کہ وہ بچوں کے لئے ایسا تعلیمی ما حول فرا ہم کرے جس کو بچے ایک خوش گوار تجربے سے تعبیر کریں۔وہ بچوں کی رہنمائی کر یں کہ ایک اچھے مستقبل کے لئے وہ اپنے بچپن کو مشغول کر یں ۔غیر ضروری تفریحات کو مو خر کر یں اور یہ نہ سمجھیں کہ وہ کسی مصیبت میں گرفتا رہیں ۔بچوں کو اس حقیقت سے روشنا س کر یں کہ کس طرح ایک کھلاڑی کھیل کے میدان میں قدم رکھتے ہو ئے مسرت محسوس کر تا ہے،ایک اداکار کیمرے کا سامنا کر تے ہوئے خوش ہوتا ہے،ایک مصنف اپنی تحریر میں غرق رہنے میں سکون محسوس کر تا ہے،ایک گلوکار مائیکرو فون میں گاتے ہو ئے خوشی محسو س کر تا ہے اور اپنے مداحوں کی جا نب سے کھڑے ہو کر بجائی جا نے والے تا لیوں کی گڑگڑاہٹ میں اس کو سکون نصیب ہو تا ہے نہ کہ دوسر وں کے لئے کھڑے ہو کر تا لیاں بجا نے میں۔بچوں کو سمجھائیں کہ تفریحا ت سے اجتناب کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ بچے کبھی بھی تفریحات سے محظوظ نہ ہوں بلکہ تر جیحات کے تعین کا فن سکھائیں۔ بچوں کی ذہن سازی اس طرح کی جا ئے جس طر ح وہ اپنے پسندیدہ کھیل ،کارٹون شو اور کامک کے مطالعہ میں خوشی محسوس کر تے ہیں بالکل اسی طر ح اپنی تعلیم میں بھی مسرت تلاش کر یں اور اگر یہ احساس بچوں میں جا گزیں ہو جا تا ہے تو ان کا بچپن تر و تا زہ ہو جا ئے گا۔ تعلیم برائے مسرت کا رجحان اگر والدین بچوں کے ذہن میں جا گزیں کر دیں تو یقناً بچے تعلیم کو تفریح کے طور پر قبول کر یں گے اور تعلیم میں دلچسپی بھی لیں گے۔کام اس وقت مشکل بن جا تا ہے جب ہم اس سے رغبت نہیں رکھتے۔ دما غ کی صفائی کے ذریعہ اطلباء ذہنی دباؤ سے نجا ت حا صل کر سکتے ہیں دما غ کی صفائی کے لئے صبح کے اولین اوقات میں عبادت ذکر و اذکار سے ذہن و قلب کو سکون و اطمینان حا صل ہو تا ہے اور ذہن و قلب کے گوشے روشن و منور ہوجاتے ہیں ۔طلباء کا فجر کی نماز سے تغافل خطر ناک ہو تا ہے۔ جسما نی اور روحانی صحت کے لئے صبح خیزی کی عادت اہم ہے۔ذہن کو آلودہ کر نے والے خیالات اور غیر ضروری معلومات ،افکار و تفریحات سے احتراز جیسے انٹر نیٹ اور مو بائیل فون کا فضول استعمال ،غیر ضروری دوستانہ ،فلم بینی اور ٹیلی ویژن سے پر ہیز کر تے ہوئے طلبا ء اپنے ذہن کو پا ک و صاف رکھ سکتے ہیں۔ذہن کو بھی تبدیلی اور تفریح کی اشد ضرورت ہو تی ہے اس کو آرام و سکون عطاکر نے کے لئے تفریحی مقامات کی سیر ،کھیل کو د ضروریہے۔ذہنی صلاحیت دباؤ ،خوف ،اضطراب بے چینی غصہ اور تناؤ کی وجہ سے تبا ہ و بر باد ہو جا تی ہے۔دباؤ ،خوف بے چینی اضطراب غصہ اور تناؤ نہ صرف طلباء کی ذہانت پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ آگے چل کر بلڈپریشر ،ذیابطیس،گردوں کے امراض اور دیگر عوارض میں مبتلاکر دیتیہیں۔احساس کمتری ،افراد خاندان کے خراب تعلقات ،گھر کا غیر خوش گوار ما حول اور معاشی بد حا لی بھی ذہنی صلاحیتوں پر اثر انداز ہو تی ہے۔والدین بچوں کی عادات و خصائل کا جا ئزہ لیں کہ کہیں بچے غصے میں آپے سے باہر ہو کر کھانے کے بر تن وغیرہ اٹھاکر تو نہیں پھینک رہے ہیں،کہیں چھوٹی چھوٹی با توں پر منہ تو نہیں بسوررہے ہیں، کہیں تنہائی پسند ی کے خوگر تو نہیں ہو رہے ہیں اگر والدین ان امور کا ابتدا میں جا ئزہ لیتے ہیں تو با آسانی ان مسائل کا سد با ب کر نے کے علاوہ بچوں میں خود اعتمادی بحال کر سکتے ہیں اور ان کو ذہنی طورپر مضبوط اور مستحکم بنا سکتے ہیں۔ذہنی تر بیت کے ذریعہ والدین بچوں کو تر قی کی راہوں پر گامزن کر سکتے ہیں والدین زندگی کے امتحان میں اگر اپنے بچوں کو کامیاب و کامران دیکھنا پسند کر تے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ ان کی ذہنی بر بیت پر بھی تو جہ دیں۔ذہنی تر بیت ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس کے ذریعے طلبا ء مستقبل کے خطرات کا جو انمردی سے مقا بلہ کر سکتے ہیں۔ذہنی تر بیت کو تر بیت خودی سے بھیتعبیر کیا جاسکتا ہے۔تر بیت خودی کے ذریعے طلباء کو رسم و رواج ،بے معنی اقدار ،غیر ضروری بحث و مبا حث ،غیر سما جی بندشوں کے اثر سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے کیو نکہ ایک کامیا ب انسان کو اس کا دل نہیں بلکہ اس کا دماغ کنٹرول کر تا ہے وہ اسی شئے سے عشق کر تا ہے جس سے وہ عشق کر نا چا ہتا ہے۔اسے نہ صرف اپنی منزل کی خبر ہو تی ہے بلکہ وہ منزل تک جا نے والے راستے میں حائل پریشانیوں اور تکالیف کا بھی علم رکھتا ہے وہ صرف منزل کی چا ہت ہی نہیں رکھتا بلکہ اپنے مقصد سے جنون کی حد تک عشق کر تا ہے۔وہ مقصد کے حصول میں حائل پریشانیوں سے کبھی متنفر نہیں ہو تاراستوں کی دل فریبی جیسے سستی ،تساہل تھکا وٹ،ٹیلی ویژن،فلم بینی و دیگر تفریحات کا شکار نہیں ہو تا ۔ذہنی تر بیت سے آراستہ طلبا ان مشکل مر ا حل سے بحسن و خوبی عہدہ براء ہو جا تے ہیں۔ان کا با شعو ر ذہن ان پر حکمرانی کر تا ہے۔ان کا ذہنی شعو ر ان کے مقاصد کو واضح رکھتا ہے وہ علم رکھتے ہیں کہ ان کی تعلیم و تر بیت کے لئے ۲۰ بیس قیمتی سال درکا ر ہو ں گے اور اس دوران پیش آنے والی مشکلات و مصائب پر وہ رونے یا شکوہ شکایت نہیں کر تے۔ذہنی تر بیت یافتہ بچے کسی کے زیر اثر نہیں رہتے وہ تعلیم سے شغف رکھتے ہیں وہ سکون و اطمینان سے تر قی کی جا نب قدم بڑھا تے ہیں ۔ذہنی تر بیت (ذہن سازی)جیسے انگریزی میں Mind Set)) کہاجا تا ہے۔اس نظریے کو نو بیل انعام یافتہ سائنسدان پالوؤف نے اپنے تجربات کے ذریعے کامیا بی سے پیش کیا ہے۔اس نے ایک کتے کے آگے ایک گوشت کا لو تھڑا رکھا جس سے کتے کے منہ میں پا نی آنے لگاکتے کے گوشت کھانے کے دوران وہ مسلسل گھنٹی بجا تا رہا۔لگا تا ر سات دن کی تر بیت کے بعد دیکھا گیا کہ گھنٹی بجنے پربغیر گوشت کے بھی کتے کے منہ میں پا نی آنے لگا۔تھوڑی سی تبدیلی کیساتھ اس نے اس تجربہ میں گھنٹی بجانے کے ساتھ کتے کے آگے ایک تصویر بھی رکھ دی اور گوشت کھانے کے دوران کتے کو بر قی کے خفیف جھٹکے دیتا رہا۔چند دن تک اس تجربہ کو دہر انے کے بعد جب کتے کو وہ تصویر جو گوشت کھا نے کے دوران اس کے آ گے رکھی گئی تھی دکھائی گئی وہ تصویر دیکھتے ہی وہ اس طرح بدکنے لگا جیسے اس کو برقی کا جھٹکا لگا ہو۔اس تجربے کی روشنی میں ہم اپنے اور بچوں کے رویوں کی تر بیت کر سکتے ہیں۔ بعض موقعوں پر غصے سے بے قابو ہو کر جہاں ہم آپے سے با ہر ہو جا تے ہیں مسکرانے کی عادت اپناتے ہوئے اپنے تناؤ پر قا بو پا سکتے ہیں یہ مشق امتحان گا ہ میں طلبا کے لئے نہایت سود مند ثابت ہو ئی ہے۔یہ کا م شروعات میں مشکل ضرور ہوگا لیکن رفتہ رفتہ ہم اس کے عادی ہو جائیں گے اور یہی ذہن سازی کہلاتی ہے۔ غصہ،شدید بحران ،نا مساعد حالات پر صبر کر تے ہوئے قابو پا نا ،محرومی اور نا امیدی پر قابو پا نا،بحث مباحث کے دوران نا پسندیدہ عنا صرپر صبر، تناؤ کی حالت اور منفی رویوں پر مثبت ردعمل جذباتی ذہانت یا شعور کہلاتا ہے۔جذباتی شعور کے ذریعہ طلباء خود پر قابو،نظم و ضبط ،حدودسے تجاوز سے پر ہیز،ارتکاز توجہ اور ذہنی و قلبی سکون و اطمینان جیسے اعلیٰ اوصاف کے حامل بن جا تے ہیں۔ذہنی تر بیت اور جذبا تی شعور کے ذریعے طلباء احساس کمتری ،عوامی سطح پر تقریر کے خوف،ڈر و خوف جیسے منفی رویوں پر مکمل قابو پا تے ہوئے ان سے نجات حا صل کر سکتے ہیں۔ دن بھر پڑھتے رہنے کی تلقین کر تے ہوئے والدین صرف احکام کی پا بندی کر نے والے روبوٹس تیار کر سکتے ہیں۔یہ سماج کی بدبختی ہے کہ تعلیمی ادارے بچوں میں علم کو پروان چڑھا نے کے بجائے انھیں رینکر مشین بنا رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے، والدین اور ماہرین تعلیم ، تعلیم کے ذریعے ذہانت (شعور) کو فروغ دینے کے فن سے تقریباً نا بلدہیں جس کی وجہ سے طلباء اپنی عملی زندگی میں نا کامی کا سامنا کر رہے ہیں۔ایک طالب علم اپنے مضمون کے سوائے دوسرے مضامین کا اگر بنیادی علم نہیں رکھتا ہے تو وہ سماج میں مذاق کا مو ضوع بن جا ئے گا۔طلباء کی شخصیت سازی ، دباؤ کے دوران تنظیمی صلاحیت ،تخلیقی صلاحیتوں کے بحران پر قابو پانے کی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لئے تر غیب کی اشد ضرورت ہو تی ہے۔تعلیم کا اصل مقصد دنیا کا کم از کم بنیادی علم حا صل کر نا ہے۔طلباء (انسانوں) کو علم،ذہانت کے خارج قسمت(IQ )اور عقل سلیم(common sense ) کی بنیاد پر ما ہرین نفسیات نے انسان کو عقل کی میزان پر مختلف درجے عطاکئے ہیں۔جس کے مطابق سماج میں ذہا نت کے اعتبارسے مختلف د ر جے کے لوگ جدا گانہ تناسب میں پا ئے جا تے ہیں۔جن میں فاتر العقل2%،احمق2.5%،بے وقوف7% ،کند ذہن10%،اوسط48% ،اوسط سے اونچے18%،دانش ور11%،اور نا بغہ روزگارGenius))1.5% پائے جا تے ہیں۔طالب علم خواہ وہ کسی درجہ سے تعلق رکھتا ہو آخر کار نا بغہ روزگار بننے کی کوشش کر ے اور حصول علم کا مقصد بھی یہی ہے اور اسی لئے ہم تعلیم حا صل کر تے ہیں۔