سنسکرت ادب کے اردو تراجم – ڈاکٹرشیخ عبدالغنی : – مبصر:ڈاکٹرعزیز سہیل

Share


سنسکرت ادب کے اردو تراجم

مصنف: ڈاکٹرشیخ عبدالغنی
09948130168

مبصر:ڈاکٹرعزیز سہیل

اردوادب میں ابتداء سے ہی ترجمہ نگاری کوبہت زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ ادب کے فروغ میں تراجم کابھی رول منفرد اور اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اردو ادب کی تاریخ پرنگاہ ڈالیں توہمیں اس بات کا علم ہوگا کہ ہمارے ادباء نے دیگر زبانوں سے استفادہ کرتے ہوئے اردو ادب میں دیگر علوم کی منفرد تخلیقات کا ترجمہ کیا اور اردودنیا کو اس علمی سرمایہ سے سیراب کیا۔اس کی مثال ہمیں فورٹ ولیم کالج ‘فورٹ سینٹ کالج ‘دلی کالج ‘علی گڑھ ورناکولر سوسائٹی ‘دارالترجمہ ‘جامعہ عثمانیہ میں ملیں گی۔

جہاں دیگر زبانوں کے ادب کو اردوومیں ڈھالاگیا ہے ‘دورحاضرمیں بھی ترجمہ نگاری کا عمل اردو ادب میں جاری ہے لیکن اب بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ عمل اجتماعی کوششوں سے انجام پارہا ہے بلکہ اس دورمیں انفرادی طورپر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کاکام انجام دیاجارہا ہے۔ مختلف زبانوں کے اردوتراجم پر کتابیں اردوحلقوں میں دستیاب ہیں ۔اردوکی ابتداء سے متعلق بہت سے نظریات سامنے آئے ہیں ۔یہ بھی کہاگیاکہ سنسکرت کے الفاظ اردو کی تشکیل میں شامل ہیں لہذا سنسکرت زبان سے اردو کا بھی ساتھ کافی گہرا ہے۔ سنسکرت ادب کے اردو تراجم بھی اردوزبان میں ہوئے ہیں لیکن عصرحاضرمیں بہت کم تراجم سنسکرت کے اردو ادب میں ہورہے ہیں۔ 21ویں صدی میں سنسکرت ادب کے تراجم کو اردو حلقوں میں پیش کرنے کا سہرا شیخ عبدالغنی کے نام ہے۔
ماہر لسانیات ڈاکٹرشیخ عبدالغنی بھونگیر ضلع نلگنڈہ کے متوطن ہیں۔ ان کا تہذیب وثقافت سے رشتہ بہت ہی مضبوط اور اٹوٹ ہے اور وہ ہندی‘سنسکرت‘تلگو اوراردوزبانوں پریکساں عبور رکھتے ہیں ۔وہ پیشہ درس وتدریس سے وابستہ ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب ’’سنسکرت ادب کے اردو تراجم‘‘ شیخ عبدالغنی کی تازہ تصنیف ہے جوحالیہ عرصہ میں اردودنیا میں روشناس ہوئی ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹرشیخ عبدالغنی نے سنسکرت ادب یعنی ویدوں سے لیکر جدید ادب کی مختلف تخلیقات کے اردو میں جوتراجم ہوئے ہیں ان کا مختصرجائزہ لیا ہے جن میں ویدک ادب‘ پوران ‘ رامائن اور مہابھارت ‘بھگوت گیتا ‘کلاسیکی ادب ‘دیگرعلوم اور فلسفہ کو شامل کیا ہے۔
زیرتبصرہ کتاب کا مقدمہ کافی اہم ہے جس میں مصنف نے سنسکرت زبان وادب کے معنی ومفہوم اور ارتقاء پر روشنی ڈالی ہیں اور وہیں سنسکرت زبا ن وادب اور قومی یکجہتی کابھی خوب تذکرہ کیا ہے۔ ڈاکٹرشیخ عبدالغنی اپنے مقدمہ میں سنسکرت کے تراجم کا آغاز اردو میں سنسکرت ادب کے تراجم کی رفتار کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ سنسکرت ادب کے تراجم کی شروعات چوتھی صدی عیسوی میں ہوئی۔ یہ سلسلہ ایسا چلا کہ دنیا کی سبھی زبانوں میں سنسکرت ادب کے سبھی اصناف کے تراجم ہوئے۔ ویدوں سے لیکر کلاسیکی ادب کے تراجم دستیاب ہیں ۔جدید ہندوستانی زبانوں میں بھی سنسکرت ادب کے تراجم کاکافی ادب دستیاب ہے۔ اٹھارویں ‘انیسوی صدی میں اردو زبان میں بھی سنسکرت ادب کے تراجم کی شروعات ہوئی۔ اردو میں بھی ویدوں سے لیکر علم وادب کی کئی تصانیف کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ یہاں ایک بات اہم ہے کہ اردو میں دیگر ہندوستانی زبانوں کی بہ نسبت بہت کم تراجم سنسکرت تصانیف کے ہوئے ہیں‘‘۔
کتاب پہلا موضوع ویدک ادب ہے۔ویدک ادب کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے فیڈریک روزن کو رگ وید کے پہلے مترجم کے طورپر پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں سب سے پہلے فریڈرک روزن نے رگ وید کے پہلے اشٹک( حصہ ) کے نسخہ کو مدون کرکے1838ء میں شائع کیا۔ میکس ملر نے سب سے پہلے ساین بھاشیہ (تشریح) کے ساتھ رگ وید کومدون کیا۔انہوں نے 1849ء سے 1875ء تک 27 سال کی محنت شاقہ کے بعد یہ کام مکمل کیا۔ تھیوڈراوفریقٹ نے رومن رسم الخط میں رگ وید سنہتا کو 1861-63ء میں شائع کروایا۔ بعدمیں رگ وید کے دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمے ہوئے۔ ہندوستان کی سبھی زبانوں میں رگ وید کا ترجمہ ہوا ہے۔اردومیں دستیاب تراجم میں رگ وید سنہتا حصہ اوَّ ل کے نام سے ماسٹرلچھمن داس نے 1873ء اردومیں ترجمہ کیاجو دہلی سے شائع ہوا۔ ‘‘اس کے اس پہلے مضمون میں انہوں نے ویدوں،اپنشد،ویدانگ سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔
اس کتاب میں شامل دوسرا مضمون ’’پوران ‘‘ہے جس میں پوران کیا ہے معنی و مفہوم اور آغاز کا زمانے سے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔پوران سے متعلق سے شیخ عبدالغنی لکھتے ہیں کہ پوران کے حقیقی معنی قدیم یا پرانا ہے۔ اس میں قصہ ‘کہانیوں‘ علم الانساب ‘تاریخ ‘ْجغرافیہ‘ علم وفنون وغیرہ سبھی قدیم عوامل شامل ہیں۔ اس لئے اس کو پوران نام سے موسوم کیاگیا۔ ان کا سن تصنیف 600ق م سے 500ق م ء تک مانا جاتا ہے ۔ پورانوں کی تعداد18 ہے اور کے ذیلی پوران بھی18 ہیں۔ ‘‘
زیر تبصرہ کتاب کا تیسرا مضمون ’’رامائن اور مہابھارت‘‘ ہے ۔اس عنوان کے تحت ڈاکٹر شیخ عبدالغنی نے ہندوستان کی ادبی وراثت پر روشنی ڈالی ہے ۔رامائن میں موجود اشعار کو پیش کیا ہے۔چوتھا مضمون ’’بھگوت گیتا ‘‘کے عنوان سے شامل ہیں۔ڈاکٹرشیخ عبدالغنی نے اس مضمون میں بھگوت گیتا کے اردو تراجم کی تفصیلات فراہم کی ہے وہ بھگوت گیتا کے تراجم سے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’ بھگوت گیتا کا ابتدائی ترجمہ دکنی اردو میں ہوا۔17ویں صدی کے دکنی شاعر سید مبین نے کرشن گیتا ‘ارجن گیتا کے نام سے کیاتھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ فیضی سے منسوب گیتا کے فارسی ترجمہ کے اردو میں دو منظوم ترجمے ہوئے ہیں۔ پہلا لچھمی پرشاد صدر نے صدر کی گیتا کے نام سے کیا جو1910ء میں شائع ہوا۔ دوسرا ترجمہ ٓالم مظفر نگری کا ہے جوعرفان مختوم کے نام سے 1960ء میں چھپا۔‘‘
ڈاکٹر شیخ عبدالغنی نے سنسکرت کے کلاسیکی ادب کا بھی تذکرہ اس تصنیف میں کیا ہے۔ انہوں نے کالی داس کے تراجم پر روشنی ڈالی ہے اوران کی تصانیف کا تعارف پیش کیاہے جو اردو زبان میں پیش کی گئی ہیں۔
بہرحال ڈاکٹرشیخ عبدالغنی نے سنسکرت ادب کے اردو تراجم میں اردو ادب کے قارئین کو سنسکرت کے اردو تراجم سے متعلق کافی اہم اور تاریخی معلومات فراہم کی ہے۔ ڈاکٹرشیخ عبدالغنی نے بہت ہی اہم تحقیقی کام انجام دیا ہے جس کے لئے وہ مبارک باد کے مستحق بھی ہیں۔ وہ ایک سنجیدہ محقق ہیں اور بالخصوص ان کامطالعہ دیگر زبانوں پر اہمیت کاحامل ہے۔وہ ہندوستان کے مشترکہ تہذیب و ثقافت کے نمائندہ محقق ہیں۔ہندستانی زبانوں پر کافی مہارت رکھتے ہیں اور اپنے تحقیقی کاموں سے اردو ادب میں دیگر زبانوں کے علوم کو روشناس کرتے ہیں ۔وہ قلمکاروں اس بھیڑ میں اپنی مخصوص انفرادیت رکھتے ہیں ۔ امید کہ ڈاکٹر شیخ عبدالغنی کی یہ کتاب اردو کے قارئین کوپسند آئے گی اوران کے معلومات کا بھی باعث بنے گی ۔میں ڈاکٹر شیخ عبدالغنی کے اس تحقیقی کام پر ایک مرتبہ پھر مبارک باد پیش کرتا ہوں اورامید بھی ہے کہ وہ دیگرزبانوں کے ادبی تراجم سے اردو کے سرمایہ میں اضافہ کریں گے۔اس کتاب کے ناشر ایجوکشنل پبلشنگ ہاوس دہلی ہے۔کتاب کی قیمت 100روپئے رکھی گئی ہے حیدرآباد میں کتاب ہدی بک ہاوس پرانی حویلی یا مصنف سے 09948130168 ربط پیدا کرتے ہوئے حاصل سکی جاسکتی ہے۔
——

ڈاکٹر شیخ عبدالغنی
ڈاکٹرعزیز سہیل
Share
Share
Share