نظم و نسق عامہ میں ابھرتے رجحانات
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ
نظم و نسق کے عامہ پر گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ نظم و نسق سے کیا مراد ہے؟ اور عامہ یعنی عوام کا۔ نظم کا مطلب ہوتا ہے ضبط کرنا اور نسق کا مطلب ہوتا ہے انتظام ۔قانون کی زبان میں نظم و نسق کا مطلب لااینڈ ارڈر Law and Order کوئی بھی معاشرہ مہذب اور متمّدن کہلانے کا حقدار تبھی ہے جب وہ مکمل طور پر یا کم از کم بڑی حد تک نظم و نسق کا حامل ہو،اسی طرح کوئی بھی ریاست یا کوئی بھی ملک Discipline یعنی قانونی نظم و ضبط کے بغیر نہ ترقی یافتہ اور نہ ہی ترقی پذیر کہلانے کا جواز رکھتا ہے ۔تعلیم کے بغیر عوام نہ تو نظم سے نہ ہی نسق سے واقف ہوتی ہے ۔جس کے نتیجے میں سماج ،ریاست اور ملک میں لاقانونیت جیسے تخریبی رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک ہندوستان کی تاریخ اپنے اندر نظم و نسق کے عامہ کے بدلتے ہوئے بے شمار رجحانات لیے ہوئے ہیں۔آریوں کی آمد سے پہلے قدیم دراوِڑ قومیں بالکل غیر شائستہ اور غیر خلیق تو نہ تھیں۔ لیکن آریہ تہذیب کے آگے سرنگوں ہوگئیں ۔یہی حال عالمی سطح پر ہر دو قوموں کے مابین رہا ۔آزادی سے پہلے ہمارے ملک میں انگریزوں کی حکومت تھی ،انگریز ہمیشہ سے نظم و نسق کے خود بھی پابند رہے ہے اور دوسروں سے بھی ایسی ہی امید رکھتے ہے ۔تصادم وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے کسی کی آزادی پر وار ہوتا ہے ۔ ہندوستان کے لوگ گنگا جمنی تہذیب کے علمبردارتھے، اسلئے انہوں نے متّحد ہو کر انگریزی حکومت کی مخالف ہوگئے، یہاں تک ۱۵ ؍ اگست ۱۹۴۷ ء کو ہم آزاد ہوگئے ۔ ملک کی تقسیم کوئی نہیں چاہتا تھا ،لیکن ملک تقسیم ہوا ۔ بنیاد پرستوں کے پاس کوئی کام نہیں تھا سوائے اس کے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے دلوں نفرت کی آگ بھر دی جائے ،اور اُسے اس حد تک ہوا دی جائے کہ گنگا جمنی تہذیب کا شیرازہ بکھر جائے ۔
دنیا کے تمام مذاہب محبّت ،اتحاد ، اور تحمل کی تعلیم دیتے ہے ۔ اسی کی بنیا د پر ہندوستان میں جتنی بھی قومیں آئیں وہ آپس میں شیر و شکر ہوگئیں ۔سوال یہ اٹھتا ہے تو پھر یہ انتہا پسندی ،عسکریت پسندی ،کہاں سے پیدا ہوگئی ؟آج کل لوگ بھی بات بات پر جھگڑ پڑتے ہے ہمارے آب و اجداد تو ایسے نہ تھے ،پھر یہ خرابیاں ہم میں اور ہماری موجودہ نسلوں میں کیونکر پیوست ہوتی جارہی ہیں؟ نظم و نسق کے عامہ کے ان بدلتے رجحانات پر اگر ہم نے غور و فکر سے کام نہیں لیا تو ہمارے معاشرے کے ،ریاست کے ، ملک کے ، اور دنیا کے حالات بگڑ سکتے ہیں ۔یہ موضوع اتنا گہرا اور وسیع ہیں کہ اس پر سیر حاصل بحث کے لیے ایک وقت درکار ہے ،میں آپ کے سامنے چند مثالیں پیش کرکے رخصت ہونا چاہوں گی۔
(۱) طالبانی ذہانت رکھنے والے مذہب کی آڑ میں تعلیم نسواں کے خلاف نظم و نسق کے عامہ کو پامال کرتے رہے ہے جس کی سب سے بڑی مثال ملالا نامی لڑکی کی ہے اور وادئی کشمیر میں لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکنے کی وارداتیں ہیں۔جبکہ ہم میں سے ہر کوئی ان آیت سے خوب واقف ہے :
’’خَلَقَ الاِنْسَانَ*عَلّمَہُ الْبَیَانََ*‘‘ ( اس اللہ نے انسان کو پیدا فرمایا اور نطق عطا فرمایا ) ۱ ( قرآن پاراہ نمبر ۲۷ ،سورہ نمبر ۵۵ ،آیت نمبر ۳ اور ۴ )
’’ الّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمَِ * عَلَّمَ الِانْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمَْ * ‘‘(اس اللہ نے قلم کے ذریعے علم سیکھایا ۔اس نے انسان کو وہ سب سیکھایا جسے وہ جانتا نہیں تھا ) ۲ ( قرآن پارہ نمبر ۳۰ ، سورہ نمبر ۹۶،آیت نمبر ۴ اور ۵ )
ان آیات میں انسان کا لفظ آیا ہے جو مرد ہو یا عورت سبھی کے لیے مطلق استعمال ہوا ہے ۔
(۲) آزاد ہندوستان کا دستور بنانے والی کمیٹی کے سر براہ ڈاکٹر بھیم راؤ آمبیٹکر نے پسماندہ ذاتوں کو آئینی تحفظ فراہم کیاتھا ۔قوموں کے درمیان اس نابرابری کو کسی نے بھی پسند نہیں کیا ۔مگر اس خیال سے کہ پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبودی ہم سبھی کی ذمہ داری ہیں۔پسماندہ طبقات میں صرف ہندو ذاتوں کو شامل کیا گیا ۔اس عدم مساوات کو لے کر ریاستِ گجرات میں پاٹیداروں نے اور ریاستِ پنجاب اور ہریانہ میں جاٹوں نے جو ہنگامہ آرائیاں کیں وہ ہم سبھی جاتے ہیں ۔بڑی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو اور ان کی پسماندگی کو تسلیم کرتی ہیں انتخابات کے دوران اپنے Manifestos یعنی علامیوں میں مسلمانوں کے Reservation کر لے کر جھوٹے وعدے کرتی رہی ہیں،اور دستوری طور پر مسلمانوں کے تحفظ کے نام پر کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاپائیں۔اُدھر مہاراشٹر میں مراٹھوں کے حقوق کو لے کر کئی بڑے جلسے اور جلوس ہوچکے ۔ مختصر یہ کہ نظم و نسق کے عامہ ہر جگہ خطرے میں ہے ،نرغے میں ہے ۔
(۳)۶ دسمبر کو بابری مسجد کی شہادت کے سانحے اور( Nine Eleven )9 / 11 یعنی ۱۱ ستمبر کوامریکی ٹریڈ سینٹر کے انہدام کے واقعے نے ساری انسانیت کو شرم سار کردیا تھا ۔ پہلے دشمن ملکوں کے ساتھ حکومتیں نبرد آزماہوتی تھیں ۔اب یہ حال ہے کہ جدید تعلیم اور ٹکنالوجی سے آراستہ نوجوان تخریب کاریوں اور تباہ کاریوں کے راستوں پر نکل پڑے ہیں لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ بد سلوکی ،حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں ،Cyber Crimes میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ مذہبی پاسداریوں کو پامال کرنا عام ہوچکا ہے ۔یہ سب اس بات کے پکّے ثبوت ہیں کہ نظم و نسق کے عامہ میں نئے نئے رجحانات ابھرتے جارہے ہیں ۔ان کا ابھرنا ہماری ترقی بہ نام پستی کی نشان دہی کرتا ہے ۔
(۴) طلبہ ملک کے مستقبل کو سنوارنے والے اچھے شہری اور رہنما ہوتے ہیں۔ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے ۔جمہوریت میں اظہار خیال کی آزادی کو تفوق حاصل ہے لیکن جے این یو میں JNU(Jawaher lal nehru university) ،DU دہلی یونیورسٹی، AMUعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی وغیرہ کے طلبہ اور طالبات کے ساتھ جو نہ روا سلوک کیے گئے وہ اظہر من الشمس ہیں ۔متعصب ذہنیت والوں نے بولنے کی آزادی کو لے کر جو ہنگامے برپا کیے تھے وہ بڑے ہی افسوس ناک تھے۔
(۵) ہندوستان کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس میں مختلف قومیں یک جہتی کے ساتھ رہتی آئی ہیں ۔ قومی یک جہتی کو لے کر مغل حکمراں بھی بڑے فکر مند تھے لہٰذا شہنشاہ بابر کے زمانے ہی سے گو کُشی پر سخت موقف اختیار کیا گیا تھا لیکن پچھلے برسوں میں گو کُشی کے نام پر قتل جیسی سنگین وارداتیں رونماں ہوئی ہیں سپریم کورٹ میں دایر مقدمات کے سلسلے میں سپریم کورٹ کا بہت سی ریاستوں سے جواب طلب کرنا اس معاملے کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے ۔
(۶) سوشیل میڈیاجیسے you tube ,blogging, whatsapp,twitter,facebook وغیرہ کے بے جا استعمال نے ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ایسی بے راہ رویوں پر ڈال دیا ہیں کہ جس سے ہمارے معاشرے کی عمارت میں بڑی بڑی دراریں ابھر آئی جارہی ہیں۔دیوانگی کی حد تک نوجوان نسل کا سوشیل میڈیا میں گم ہوجانا ہمارے اپنے لیے ،سماج کے لیے ،اور ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
(۷) پہلے بادشاہ اور عمرہ نامور مصنفوں سے تصوریریں بنواتے تھے کیمرے کی ایجاد کے بعد ہر کوئی اپنی فوٹو کھینچوا سکتا تھا اس سلسلے میں کہیں بھی کہیں بھی جان کا خطرہ نہیں تھا لیکن سمارٹ فون کے آتے ہی selfie کا خبط یعنی Craze اس حد تک بڑھا کہ selfie کی خاطر جان گنوانے والوں میں دنیا کے ملکوں میں ہمارے ملک کا پہلا نمبر ہے۔
(۸)ہمارا ملک کئی مذہبوں ،تہذیبوں اور ثقافتوں کی آمازگاہ ہیں ۔ہمارے یہاں مذہبی نیم مذہبی اور غیر مذہبی اجتماعت میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی بھی حاضری ناگزیر ہیں ، لیکن ان تقریبات میں لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ بد سلوکی اورایذا دہی عام بات ہیں۔ ہماری نوجوان نسلیں تشویش ناک حد تک بد حواشی کا شکار ہوگئی ہیں ۔لہٰذا لڑکیوں اور عورتوں کو ستانا ،تکلیف دینا ،دکھ پہنچانا ، پریشان کرنا ،اور بلا تکلف سرِعام چھیڑ چھاڑ کرنا آئیں بائیں شائیں سمجھا جانے لگا ہے جوکسی بھی مہذب معاشرے کے حق میں کسی بھی حال میں درست نہیں ہے ۔ اس ضمن میں ہونے والی تمام وارداتیں نہ صرف معاشرے کے لیے بلکہ محکمۂ پولیس اور محکمۂ انتظامیہ کے لیے باعث ندامت ہیں۔
(۹) رشوت خوری ایک ایسی برائی ہے جو ہر دور میں پائی جاتی ہے جس میں عام اور خاص دونوں ہی ملوث ہیں۔رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں ایک ہی سکّہ کے دو پہلو ہے ۔ اس میں اسپتال ، دفاتر ،کمپنیاں،وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ اسپتال جہاں جسمانی اعضاء کی خرید و فروخت خفیہ طریقے سے کردی جاتی ہے ،وہیں صنعت کار،کارخانے دار ،اور تاجر ملک کی معیشت کی شان ہوتے ہیں ۔کبھی تو یہ لوگ افسروں کو رشوت دے کر ہر طرح کی ٹیکس چوری کرکے ،کالابازاری کرکے اور افراطِ زر پیدا کرکے ملک کے اقتصادی ڈھانچے کو کمزور کرتے ہیں نقصان پہنچاتے ہے اور کبھی غیر ذمہ دار ،لالچی رشوت خور افسر ان کے کام نپٹانے کے معاوضے کے طور پر ان سے تحفہ طائف حاصل کرنے اور ناجائز آمدنی کمانے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اس دو طرفہ حملے کی مار سے ایک طرف ملک کی رعایا اور دوسری طرف ملک کی اقتصادی ترقی اثر انداز ہوتی ہے ۔بھارت جیسے جمہوری ملک کے لیے یہ جان لیوا ناسور ہے ۔موجودہ مرکزی حکومت نے اسے ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر پہلے تو راتوں رات(Demonetisation) یعنی نوٹ بندی کرکے سب کو سکتے میں ڈال دیا ، لوگوں کو اپنا کام کاج چھوڑ کر گھنٹوں تک قطاروں میں لگے رہنے پر مجبور ہونا پڑا ۔یہ سلسلہ اتنا بڑا کہ لوگوں کی بے چینی ناقابلِ برداشت ہونے لگی ،تو حکومت نے Cash Less لین دین کو بڑھاوا دینے کی چال چلی ۔ جس کے نتیجے میں جو خدمات مفت میں دی جاتی تھی ان تمام خدمات کے عوض بینکیں اور لین دین کرنے والے تمام ادارے مختلف Charges کے نام پر عوام سے پیشہ بٹورنے لگ گئے ۔ اس کے بعد G.S.T. یعنی ((Goods and Services Tax) نافذ کرکے سب کو چونکا دیا ۔معتبر ذرائع کے مطابق ان دونوں کا اثر حکومت کی توقع کے خلاف منفی انداز میں ملک کی GDP (Gross Domestic Product ) کی شرح پر ہورہا ہے ۔
(۱۰)کئی زمانے سے رنگ بھید بھاؤ ،اونچ نیچ ،علیٰ اور ادنیٰ ذات پات جیسے خیالات روایتی طور پر ہی سہی ،وہ آج تک بھی ہمارے درمیان جاری و ساری ہیں۔آج بھی بیواؤں کی شادی ،ایک مسئلہ ہیں ، سماج کی نوبیاہ تا لڑکیاں آج بھی جہیز کی لعنت کا شکار ہیں،طلاق کا مسئلے نے اس قدر سنجیدگی اختیار کیں کہ سپریم کورٹ نے عورتوں پر ہونے والے مظالم کے پیش نظر انسانی حقوق کی پاسداری کی خاطر طلاقِ بدعت یعنی Triple Talaq کو غیر آئینی قرار دیا ، نیز مرکزی حکومت کو اس سلسلے میں قانون سازی کی ہدایت کی ۔
(۱۱) دنیا میں فلم سازی میں ہولی وڈ کا نام سرِ فہرست ہے ،لیکن ہمارے بولی وڈ سے O.M.G. اور P.K. جیسی فلمیں بن کر جب ریلیز ہوتی ہیں تب لوگوں میں جس قدر ان کی واہ وائی ہوتی ہے اس قدر ملک کی عوام میں دائمی طور پر سدھار نہیں ہوتا ۔لوگ شوقیانہ طور پر ایسی فلموں کو بار بار دیکھنا تو پسند کرتے ہیں مگر سماج میں وہ انقلابی تبدیلی آج بھی مفقود نظر آتی ہے۔ اندھے اعتقاداور اندھی تقلید کے پنجے سے لوگوں کو چھڑایا نہیں جاسکا ۔ حب الوطنی کے نام نہاد نارے بازوں کے خلاف ریاستی اور مرکزی حکومت کی چُپیNational Anthem
یعنی قومی ترانہ ’جن گن من‘ ہونے کے باوجود وندے ماترم کو زور ذبردستی سے پڑھنے پڑھانے کی کوششیں نہ صرف حب الوطنی کے حقیقی جذبے کے منافی ہیں بلکہ متعاصبانہ ماحول کی خالق ہیں۔دیکھا جائے تو جن گن من کے بعد سب سے زیادہ اقبال کا ترانہ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘ گایا جاتا ہے ۔ آرمی کی تمام ساخوں میں بھی اسے معتبر مقام حاصل ہیں یہاں تک کہ پہلے ہندوستانی خلا ء باز راکیش شرما نے خلاء میں پہنچ کر اس وقت کی وزیر اعظم آنجہانی شریمتی اندھرا گاندھ کے سوال پر کہ وہاں (خلاء) سے ہندوستان کیسا نظر آرہا ہے ؟ کے جواب میں یہی تو کہا تھا کہ ’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘ ۔
(۱۲) دیسی بدیسی کھانا پکانے سے لے کر کھانا کھانے تک میں روز بروز بدلاؤ آتا جارہا ہے جس کے باعث ہم اپنے ہی روزمرّرہ کے پکوانوں کو اور ان کے ذائقوں کو بدلتے جارہے ہیں حالانکہ ہر پکوان اپنی تہذیب کو بھی ساتھ لے کر آتا ہے لیکن کچھ لوگ ان پکوان کو vage اور Non vege کی فہرست بنا کرکے نفرت پھیلاتے ہیں ۔ کھانوں کی پسند ناپسند اپنی جگہ درست ہے لیکن نفرت ذدہ ہونا اور نفرت انگیزی کرنا دونوں ناقابلِ برداشت عمل ہیں۔ عصر حاضر میں ہمارے ملک ہندوستان میں بھی بین ریاستی اور بین الا قوامی کا رواج عام ہوچلا ہے اب لوگ روایتی پکوانوں کے علاوہ Tortillas,Pastry,Macaroni,Pasta Cake, Pizza, Noodles,
وغیرہ کے بھی ذائقوں سے لطف انداز ہوتے ہیں،محظوظ ہوتے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم کسی ایک فرقے ،ذات ،گروہ کے نہ ہوکر عالمی برادری کا اٹوٹ حصّہ بنے خود بھی شان سے جیں اور دوسروں کو بھی شان سے جینے دیں ۔
اس سوال کا اٹھنا لازم ہے کہ کمپیوٹر سے آراستہ اس سائنسی دور میں آج کا ترقی یافتہ انسانی سماج Intolerance یعنی عدم تحمل ،عدم رواداری ،تعصب ، اور تنگ نظری کی طرف کیونکر بڑھتا چلا جارہا ہے ؟ اس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے انسان کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے ان الفاظ میں دیا ہے :
’’ کَلَّاَ اِنَّ الْاِ نْسَانَ لَیَطْغیَٰ * اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنیَٰ * ( حقیقت یہ ہے کہ انسان (بلا سوچے سمجھے ) آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور اسلئے کہ وہ یعنی انسان اپنے آپ کو بے پرواہ سمجھتا ہے ۔) ۳ (قرآن پارہ نمبر ۳۰ ، سورہ نمبر ۹۶، آیت نمبر ۶ اور ۷ )
بیان کرنے کے لیے واقعات تو بہت ہیں لیکن وقت کی پابندی مجھے اختصار پر مجبور کرتی ہیں نظم و نسق کے عامہ میں ابھرتے اچھے رجحانات کو ہم سراہیں گے ،لیکن تخریب کار رجحانات کی ہم پر زور مخالفت اور مزمّت کرتے رہیں گے۔ اس سیمینار کے حاضرین سے میری یہ التجا ہے نہ ہم خود بات بے بات پر مشتعل ہوں گے اور نہ ہی کسی کو مشتعل کریں گے ۔ قانون کو اپنا کام کرنے دیں گے ،قانون کو نہ ہم اپنے ہاتھ میں لیں گے نہ کسی کو لینے دیں گے ۔ ہم بلاسوچے سمجھے آپے سے باہر ہونے سے بچیں گے ۔ اچھے اور برے معاملات کو پرکھنے میں لاپرواہی نہیں برتیں گے اگر ہم اپنے اس عزم میں کامیاب ہونے کی مسلسل جدو جہد کرتے رہیں گے تو ، خالقِ کائنات ،رب العزت ،اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انسانیت کو شرم سار ہونے سے بچا سکیں گے ۔
———
Dr.Shaikh SufiyaBanu .A.