مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536
دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 14
فہم قرآن کیا آسان کیا مشکل؟
دین میں قرآن فہمی کی اہمیت ۔ تیرھویں قسط کے لیے کلک کریں
بعض مرتبہ آدمی کسی کی بات کو سُننے اور جاننے کے باوجود اس کی مراد و مطلب کو سمجھ نہیں پاتا جس کی بناء پر و ہ غلط فہمی و بد گمانی کا شکار ہوجاتا ہے، اور جب دو گروہ کے درمیان کسی بات کے متعلق اختلاف ہو تو اس صورت میں اس کی مراد و مطلب کو سمجھنا انتہائی ضروری ہوجاتا ہے ۔
اس لئے کہ بعض اوقات دو گروہ میں اختلافِ الفاظ کے باوجود مراد و مطلب یکساں ہوتا ہے اور جب دین کے کسی عمل میں دو گروہ کے درمیان اختلاف ہوتو اس کی حقیقت و نوعیت اور الفاظ کی مراد کو سمجھنا بہت ہی ضروری ہے کیونکہ اگر اختلاف کی حقیقت و نوعیت کو نہیں سمجھا گیا تو بعض وقت آدمی دین میں تفریق کا بھی مرتکب ہوجاتا ہے۔ جن دینی اعمال میں دو گروہ کے درمیان لفظی اختلاف پایا جاتا ہے ان میں سے ایک فہمِ قرآن کا عمل ہے اس سلسلہ میں علماء کا ایک گروہ فہمِ قرآن کو مشکل گرادنتا ہے۔ اور دوسرا گروہ آسان گردانتا ہے۔ لیکن یہ اختلاف صرف لفظوں تک محدود ہے اور دونوں گروہ کی مراد تقریباً یکساں ہے۔ اس لئے کہ علماء کا جو گروہ فہمِ قرآن کو مشکل گردانتا ہے اس کے نزدیک اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کی کوئی بات انسانوں کی سمجھ سے باہر ہے بلکہ یہ گروہ بھی پورے طور پر تسلیم کرتا ہے کہ قرآنی باتوں کو سمجھنا انسانوں کے لئے آسان ہے لیکن چونکہ کچھ آیات میں اجتہادی پہلو شامل ہے، کچھ آیات میں ناسخ و منسوخ کا پہلو ہے کچھ آیات سے فقہی مسائل مستنبط ہوتے ہیں، کچھ آیات میں بیک وقت واجب و مستحب حکم کا امکان پایا جاتا ہے ، کچھ آیات کی تشریح احادیث رسولؐ سے متعلق ہے ، کچھ آیات میں حقیقی معنیٰ کی بجائے مجازی معنی مراد لئے گئے ہیں، اس لئے ایسی صورتوں میں ایک عام آدمی کے لئے کوئی ایک حکم متعین کرنا دشوار ہوتا ہے، اس لحاظ سے علماء کے اس گروہ نے فہمِ قرآن کو مشکل گرداناہے۔ اور یہ بات خاص طور پر ہندو پاک کے پس منظر میں کہی گئی ہے جہاں کے مسلمانوں کی زبان غیر عربی ہے اور جو عربی زبان کے لب و لہجہ اور نشیب و فراز سے بالکل نابلد ہیں، لیکن اس رائے کو بنیاد بنا کر فہمِ قرآن کو شجرِ ممنوعہ سمجھ لینا اور اس سے اپنا دامن چھڑا لینا کسی بھی طرح درست نہیں ہے جیسا کہ اس وقت امت کے ایک بہت بڑے طبقہ نے اس خیال کو بنیاد بنا کر فہمِ قرآن کو شجر ممنوعہ سمجھ لیا اور اس سے بالکلیہ اپنا دامن چھڑا لیا اور یہ تاثر قائم کرلیا کہ قرآن عام لوگوں کے سمجھنے کی کتاب نہیں ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ جو عالم دین اپنے علم و مطالعہ کی روشنی میں مسلمانوں کو قرآن سمجھانا چاہتا ہے یا کوئی شخص کسی ترجمہ و تفسیر کے ذریعہ قرآن سمجھنا اور سمجھانا چاہتا ہے تو اس کے اس فعل کو بیکار کہا جاتا ہے ، اور اگر بس چلے تو قوت بازو سے روکنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔
علماء کے جس گروہ نے فہمِ قرآن کو آسان قرار دیا ہے اس کا مطلب اس گروہ کے نزدیک یہ نہیں ہے کہ فہمِ قرآن کی کوشش کے بغیر قرآن خودبخود سمجھ میں آجائے گا، یا بغیر علم کے اس میں رائے زنی کی جائے یا آیات قرآنی کی من مانی تاویلیں کی جائیں جیسا کہ بعض مترجمین و مفسرین کے ترجمہ و تفسیر میں پائی جاتی ہیں بلکہ فہمِ قرآن کے لئے جن اصول و ضابطوں کی ضرورت ہے علماء کا یہ گروہ بھی انھیں ضروری قرار دیتا ہے۔ غرض کہ فہمِ قرآن کے متعلق آج امت میں جو افراط و تفریط پائی جاتی ہے اس کو دور کرکے اس میں اعتدال پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
بعض لوگ یہ کہہ کر فہمِ قرآن سے جان چھڑا لیتے ہیں کہ قرآن صرف علماء کے سمجھنے کی کتاب ہے اور اس کا سمجھنا عام ایمان والوں کی سمجھ سے باہر ہے جبکہ یہ اللہ تعالی پر بہت بڑا بہتان ہے ، کیونکہ اس صورت میں یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی اتباع تو تمام ایمان والوں پر لازم قراد دی لیکن اس کتاب کو تما م ایمان والوں کے سمجھنے کے لائق نہیں بنایا ، اس میں شک نہیں کہ قرآن کو براہ راست عربی زبان سے سمجھنے سمجھانے کا کامل حق علماء حق ہی ادا کرسکتے ہیں۔ لیکن فہمِ قرآن کا جو ضروری درجہ ہے اور ہر مومن کے لئے لازم ہے وہ آسان ہے۔ مثلاً کسی عالمِ قرآن سے قرآن کے احکام و فرامین سن کر سمجھنا ، یہا ں یہ بات بھی واضح رہے کہ کسی عالمِ قرآن کی تفسیر بھی عالم کے قائم مقام ہے۔یعنی اگر کوئی شخص براہ راست کسی عالم سے قرآن سمجھنے کی بجائے اس کی لکھی ہوئی تفسیر کے ذریعہ قرآن سمجھ رہا ہے تو گویا وہ بھیسے قرآن سمجھ رہا ہے۔ قرآن کی ایسی بے شمار آیات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ یہ کتاب تمام ایمان والوں کے سمجھنے کے لیے نازل کی گئی ہے بلکہ اس کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس کو تمام انسان وایمان والے سمجھیں۔ بطور نمونہ دو آیات ملاحظہ ہوں سورہ یوسف کی آیت ۲ میں ارشاد ربانی ہے۔
اِنَّاْاَنْزَلْنَاقُرْءٰ نَاً عَرَبِیَّاً لَّعْلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ (۲) (یعنی بے شک ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا تاکہ تم سمجھو) اسی طرح سورۂ زخرف کی آیت (۳) میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِنَّا جَعَلْنٰہُ قُرْاٰنَاً عَرَبِیَّاً لَعْلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ (۳) (یعنی بے شک ہم نے بنایا اس کو عربی قرآن تاکہ تم سمجھو) اگرچہ مذکورہ دونوں ہی آیات میں اوّلین مخاطب اہلِ عرب ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ قرآن صرف اہل عرب کے لیے ہی نازل نہیں ہوا بلکہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے نازل ہوا، اس لیے تمام انسان اس حکم کے عام طور پر مخاطب ہیں اور تمام ایمان والے بطور خاص اس حکم کے مخاطب مکلّف ہیں۔