قسط: 12 – قرآن اعمال کی فضیلت کا سرچشمہ : – مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 12
قرآن اعمال کی فضیلت کا سرچشمہ

مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت ۔ گیارھویں قسط کے لیے کلک کریں

قرآن جس طرح علم و ہدایت اور احکا م دین کا سرچشمہ ہے اسی طرح فضیلت اعمال کا بھی سر چشمہ ہے اور یہ خیال کہ تعلیم قرآن سے دینی اعمال کی فضیلت اور ان کی قدر و قیمت معلوم نہیں ہوتی قرآن کے تقریباً پانچویں حصہّ سے نظر پھیرلینا ہے، اس لیے کہ کل آیاتِ قرآنی عنوانات کے لحاظ سے پانچ حصّوں پر مشتمل ہیں۔

(۱) آیات احکام (۲) آیات امثال (۳) آیات قصص
(۴) آیات انذار (۵) آیات تبشیر
آیاتِ تبشیر یعنی وہ آیات جن میں نیک اعمال پر اجروثواب اور جنت کی خوش خبری سنائی گئی ہے، قرآن کے اس پہلو کو واضح کرنے کے ضرورت اس لیے ہے چوں کہ آج جن وجوہات کی بنا ء پر قرآن کے سمجھنے اور سمجھانے سے بے رخی برتی جاتی ہے ان میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس کے تحت کہا جاتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو صرف دینی اعمال کی فضیلت اور ان کی قدر وقیمت بتانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے اندر عمل کا جذبہ پیدا ہو اور قرآن کے سمجھانے سے ان کو اعمال کی فضیلت معلوم نہیں ہوسکتی۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ لوگوں کو اعمال پر ڈالنے کے لیے ان کی فضیلت بتانا بڑا مؤثر ذریعہ ہے لیکن کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دین کا کوئی عمل ایسانہیں ہے جس کی قرآن نے فضیلت اور قدروقیمت نہ بتائی ہواور ایسے دلنشین انداز میں بتائی ہے کہ کسی اور کتاب میں ایسے دلنشین انداز میں نہیں ملے گی۔ تاہم اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ انسان کے مقرر کئے ہوئے فرضی نیک اعمال کی فضیلت سننے کو ملے تو یہ قرآن میں نہیں ملے گی اس لیے اللہ کی نظر میں انسانوں کے گھڑے ہوئے نیک اعمال کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے بلکہ یہ الٹی جہالت اور گمراہی ہے۔ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ آج مسلمان نیک اعمال اختیار کرنا بھی چاہتے ہیں تو وہ جنہیں انسانوں نے مقرر کیا ہے اور فضیلت سننا بھی چاہتے ہیں تو وہ جو انسانوں نے اپنے طور سے بیان کی ہے۔ جب کہ دینی اعمال وہی معتبر ہیں
جو قرآن اور احادیثِ صحیحہ میں بیان ہوئے ہیں ، اور اعمال کی وہی فضیلت معتبر ہے جو قرآن اور احادیث صحیحہ میں بیان ہوئی ہے۔ دین کے ساتھ مسلمانوں کا یہ طرزِ عمل دراصل نتیجہ ہے فہمِ قرآن سے بے رخی کا۔ یہاں تک کہ نبی کریم ؐ کی حقیقی پیروی کا جذبہ بھی فہمِ قرآن ہی سے پیدا ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے والا یا سننے والا جب قرآن میں جگہ جگہ پڑھے گا یا سنے گا کہ حضرت محمد ﷺ کی اطاعت و پیروی کرو تو ا س کے اندر آپؐ کی اطاعت کا جذبہ پیدا ہوگا پھر وہ احادیث رسولؐ کو بھی جانے گا۔ گویا کہ لوگوں کو احادیث رسولؐ کے قریب کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ انھیں پہلے قرآن سے قریب کیا جائے، ویسے بھی دین میں قرآن کا مقام سب سے مقدم ہے اس لئے علم و عمل میں بھی اس ترتیب کا لحاظ ہونا چاہئے۔ اسی ترتیب کو ملحوظ نہ رکھنے کا نتیجہ ہے کہ آج ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو محض اس بناء پر بے دین اور سلام و کلام کے لائق نہیں سمجھتا کہ وہ بدعت طریقہ پر فاتحہ نہیں دیتا اور درودوسلام نہیں پڑھتا جب کہ اسی مسلمان کی نظر میں اُس مسلمان کے دین میں کوئی فرق نہیں آتا جو زندگی بھر غیر اسلامی حکومت کی غلامی کرتا ہے، رات دن فرض نمازوں سے غفلت برتتا ہے سود، رشوت، جوّے کو بُرا نہیں سمجھتا۔ اور یہ بھی اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ایک مسلمان ایک مرتبہ سُبحان اللہ کہنے پر لاکھوں نیکیوں کی خوشخبری سُناتا ہے ۔ لیکن اللہ کی راہ میں جہاد و قِتّال کی کیا فضلیت ہے اس کو نہیں معلوم۔ قرآن کی جن آیات میں اعمال کے فضائل بیان ہوئے ہیں وہ آیات اتنی زیادہ ہیں کہ ایک مضمون میں جمع نہیں کی جاسکتی۔ بطور نمونہ چند آیات ترجمہ اور خلاصہ کے ساتھ پیش کی جارہی ہیں تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ قرآن کے ذریعہ بھی اعمال کی فضلیت اور اُن کی قدر و قیمت بتائی جاسکتی ہے۔ سورہ بقرہ کے پہلے رکوع میں اللہ تعالی نے متقیوں کی چند صفات بیان کرنے کے بعد پانچویں آیت میں ان کی فضلیت یوں بیان فرمائی : اُوْلٰٓءِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّ بِّھِمْ وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ترجمہ: (یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی جانب سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں) یہ اتنی بڑی فضیلت اور خوشخبری ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی خوشخبری ہو ہی نہیں سکتی ، اس لیے ؂ کہ ایک کامیاب انسان بننے کے لئے
دو چیزیں درکار ہیں ، یعنی اللہ کی جانب سے ہدایت اور کامیابی کی ضمانت اور یہ دونوں ہی چیزوں کا اللہ نے مذکورہ آیت میں وعدہ کیا ۔ کتنی نادانی ہے ان لوگوں کی جو قرآن کی بیان کی ہوئی فضیلت کو ناکافی سمجھ کر جھوٹی روایت اور جھوٹے واقعات کے ذریعہ اعمال کی فضیلت بیان کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ دین کا بہت بڑا کام کر رہے ہیں۔ جھوٹی روایات و واقعات کے ذریعہ رسمی اعمال کا جذبہ تو پیدا کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن دین کے حقیقی اعمال کا جذبہ قرآن ہی کے ذریعہ پیدا کیا جا سکتا ہے ۔ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۵؂ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور اعمال صالحہ کی فضیلت یوں بیان فرمائی :وَبَشِّرِالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا وَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ کُلَّمَارُزِقُوْامِنْھَامِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقاً قَالُوْاھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَامِنْ قَبْلُ وَاُتُوابِہِ مُتَشَابِھاً وَلَھُمْ فِیْھَااَزْوَاج’‘ وَ مُّطَھَّرَۃ’‘ وَھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ۔ (بقرہ۲۵)ترجمہ : (اے محمد ؐ ) خوشخبری سنا دیجئے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جب بھی انھیں ان باغات کے پھلوں سے رزق دیا جائے گا تو وہ کہیں گے اس سے پہلے بھی ہم کو اس طرح کے پھل دئے گئے تھے حالانکہ وہ صرف شکل میں پہلے پھلوں کی طرح ہوں گے۔ اور ان کے لئے اس میں پاک بیویاں ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ )
کیا ایمان اور اعمال صالحہ کے لئے اس سے بڑھ کر بھی کوئی خوشخبری ہو سکتی ہے ؟ بڑی بد نصیبی ہے ان لوگوں کے لئے جو قرآن کی بیان کی ہوئی فضیلت و خوشخبری کو ناکافی سمجھتے ہیں اور موضوع روایات و واقعات کا سہارا لیتے ہیں۔ سورۂ بقرہ کے انیسویں رکوع میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو چند چیزوں سے آزمانے کا وعدہ کیا اور آخر میں آزمائشوں پر صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنائی اور مزید خوشخبری یہ سنائی کہ ان پر ان کے رب کی جانب سے عنایتیں اور رحمت ہے ، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔ سورۂ بقرہ ہی کی آیت ۲۶۱؂ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں مال خرچ کرنے والوں کی فضیلت یوں بیان فرمائی :مَثْلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنْبِلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ وَاسِع’‘ عَلِیْم’‘۔ (سورہ بقرہ آیت ۲۶۱)
ترجمہ:۔ ( ان لوگوں کی مثال جو اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح ہے۔ جسے بویا گیا ہو اور اس سے سات بالیاں نکلی ہوں اور ہر بالی میں سو دانے آئے ہوں اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے مزید بڑھاتا ہے اور اللہ وسیع علم والا ہے۔)اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہو سکتی ہے کہ ایک کے بدلے ہر ایک کو سات سو گنا اجر تو یقیناًمل رہا ہے ، اور اس میں مزید بڑھوتری ہو سکتی ہے ۔ سورہ حٰمٓ السجدہ کی تین آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے ایمان پر استقامت دکھانے پر بڑے دلنشین اندا ز میں جنت کی خوشخبری سنائی فرمایا:اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰءِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْابِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ۔(۳۰) نَحْنُ اَوْلِیٰءَکُمْ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَدَّعُوْنَ .(۳۱) نُزُلاً مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۔(۳۲)ترجمہ :۔ (بیشک جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں تو فرشتے ان کے پاس یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوشخبری سن لو اس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ہم تمھارے ساتھی ہیں ، دنیوی زندگی میں اور آخرت میں اوراس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہے جس کو تم مانگو ، یہ اللہ کی طرف سے مہمان نوازی ہے۔)
مذکورہ آیت میں ایمان پر استقامت کی جو فضیلت بیان کی گئی ہے اس سے بڑھ کر فضیلت و انعام کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی ۔ لیکن افسوس ہے ان لوگوں کی سوچ پر جو قرآن کے متعلق خیال رکھتے ہیں کہ قرآ ن میں اعمال کی فضیلت کا پہلو نمایاں نہیں ہے ۔ سورۂ حٰمٓ السجدہ ہی کی آیت ۳۳ میں اللہ تعالیٰ نے دعوت الی اللہ اور عمل صالح کی فضیلت یوں بیان فرمائی : وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلٰی اللّٰہِ وَعَمَلَ صَالِحاً وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مَنَ الْمُسْلِمِیْنَ (۳۳)ترجمہ :۔ (اس شخص سے بڑھ کر اور کس کی بات اچھی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ ) دعوت دین اورِ عمل صالح کی اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی بات کو سب
سے بہتر بات قرار دیا ۔ سورۂ اٰل عمران کی آیت۱۶۹ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جان دینے والوں کی فضیلت یوں بیان فرمائی ۔ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلٍ اللّٰہ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْیَآء’‘ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنْ.ترجمہ :۔ (جولوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ہیں انھیں مردہ مت سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں ) اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کی اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہو سکتی ہے کہ اللہ نے انھیں بطور اعزاز و اکرام کے مردہ کہنے سے بھی منع فرما دیا سورۂ انفال کے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی چند صفات بیان فرمانے کے بعد انھیں یوں خوشخبری سنائی اُوْلٰءِکَ ھُمْ الْمُوْمِنُوْنَ حَقَّالَھُمْ دَرَجٰت’‘ عِنْدَرَبِّھِمْ وَ مَغْفِرَۃ’‘وَّرِزْق’‘ کَرِیْم’‘ ۔ترجمہ :۔ (وہی سچے ایمان والے ہیں ، ان کے لئے اپنے رب کے پاس اونچے درجات ہیں اور مغفرت اور باعزت رزق ) سورۂ زمر کے آخری رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنے سے ڈر کر زندگی گزارنے والوں کے لئے یوں خوشخبری سنائی :وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقُوْا رَبَّھُمْ اِلیَ الْجَنَّۃِ زُمْراً ط حَتّٰی اِذَا جَآءُ وْھَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُھَا وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَا سَلٰم’‘ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَا خٰلِدِیْنَ .وَقَالُوْا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعَدَہُ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبوَّ اُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآءُ فَنِعْمَ اَجْرَُ الْعٰمِلِیْنَ (۷۳،۷۴) ترجمہ :۔ (جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے ، ان کے گروہ کے گروہ جنت کی طرف لیجائے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے تو اس کے دروازے کھول دئے جائیں گے اور ان سے جنت کا داروغہ کہے گا تم پر سلام ہو ، خوشخال رہو ، تم اس میں ہمیشہ کیلئے داخل ہو جاؤ۔ وہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہمیں زمین کا وارث بنایا ۔) جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے تو اس کے دروازے کھول دئے جائیں گے اور ان سے جنت کا داروغہ کہے گا تم پر سلام ہو ، خوشخال رہو ، تم اس میں ہمیشہ کیلئے داخل ہو جاؤ۔ وہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہمیں زمین کا وارث بنایا ۔ہم جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں پس عمل کرنے والوں کا کیا ہی اچھا بدلہ ہے ۔) سورۂ نبا میں اللہ تعالیٰ نے متقین کیلئے جنت کے انعامات کی یوں خوشخبری سنائی :اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازاً (۳۱) حَدَاءِقَ وَاَعْنَاباً (۳۲)وَّکَوَاعِبَ اَتْرَاباً (۳۳) وَّکاء ساً دِھَاقاً (۳۴) ترجمہ : (بیشک اللہ سے ڈرنے والوں کیلئے کامیابی ہے ، باغ اور انگور اور نوجوان عورتیں ، اور چھلکتے ہوئے پیالے ہیں ۔ )

Share
Share
Share