قسط : 11 – علم دین میں قرآن کا مقام : – مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 11
علم دین میں قرآن کا مقام

مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536
——–
دین میں قرآن فہمی کی اہمیت ۔ دسویں قسط کے لیے کلک کریں
——-

اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ علم قرآن ہی دراصل علم دین ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے دین کو قرآن ہی کی شکل میں آنحضورﷺ پر نازل فرماکر انسانوں تک پہنچایا ہے۔ اس لحاظ سے علم دین کا لازمی تقاضہ علم قرآن ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص علم دین سے تو واقف ہو مگر علم قرآن سے ناواقف ہو۔ اور اگر کوئی علم قرآن سے ناواقف ہونے کے باوجود دین سے واقفیت کا دعویٰ کرے تو وہ جہالت کا شکار ہے۔

یہ موجودہ دور کا المیہ ہی ہے کہ علم دین اور علم قرآن میں اتنا گہرا تعلق ہونے کے باوجود مسلمانوں کے نزدیک علم دین کے معاملہ میں علم قرآن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور ستم ظریقی یہ کہ جو حضرات حصول دین کو ضروری سمجھتے ہیں اور اس کے لیے وقت بھی فارغ کرتے ہیں وہ بھی علم قرآن کو ضروری نہیں سمجھتے اور نہ اس کے حصول کی کوشش کرتے ہیں بس زیادہ سے زیادہ الفاظ قرآن کے سیکھنے اور یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف ایسے قصے اور کہانیوں کو بڑے ذوق شوق سے یاد کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں جنکی علم دین میں نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ کوئی حیثیت۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بہت سے وہ دینی مدارس جن کے قیام کا مقصد ہی طلباء علوم دین کو دینی علم سے آراستہ کرنا ہے وہ بھی علم قرآن کو خصوصی توجہ کا حامل نہیں سمجھتے، بلکہ صرف الفاظِ قرآن کو توجہ کا حامل سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج قرآن اپنی لفظی شکل میں لاکھوں طالبین علم دین کے سینوں اور زبانوں پرصحت کے ساتھ موجود ہے۔لیکن اپنی معنوی و علمی حیثیت سے چند ہی کے سینوں اور زبانوں پر ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہالت کی تاریکی غافل مسلمانوں کے ذہنوں اور گھروں سے کیا دور ہوتی خود حاملین الفاط قرآن کے سینوں سے دور نہیں ہوئی ، کیوں کہ ان الفاظ کو معانئی قرآن کا جامہ نہیں پہنایا گیا اور علم کی روشنی معانی قرآن میں ہے، اور یہ اصولی بات ہے کہ جب تک سینہ میں علم قرآن کی روشنی داخل نہیں ہوتی ، تب تک جہالت کی تاریکی سینہ سے نہیں نکل سکتی۔موجودہ زمانہ میں دین اور قرآن کے ساتھ مسلمانوں کا جو عمومی رویہ ہے اس پر نبی کریمﷺ کی ایک وعیدی پیشین گوئی پورے طور پر صادق آتی ہے۔
عَنْ عَلِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِﷺ یُوشِکْ اَنْ یَّاتِیَ عَلیَؓ الْنَّاسِ زَمَان’‘ لَّا یَبْقیٰ مِنْ الْاِسْلَامِ اِلَّا اِسْمُہٗ وَلَا یَبْقٰیْ مِنَ الْقُرآنِ اِلَّا رَسْمُہٗ مَسَاجِدُ ہُمْ عَامِرَۃ’‘ وَّھِیَ خَرَاب’‘ مِّنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ الْسَّمآءِ مِنْ عِنْدِہِمْ تَخْرُجُ الفِتْنَۃُ وَ فِیْھِمْ تَعُودُ ۔(بیہقی ، مشکٰوۃ)ترجمہ :۔ (حضرت علیؓ سے روایت ہے کہا رسول ﷺ نے فرمایا : قریب ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے، نہیں باقی رہے گا اس میں اسلام ، مگر صرف نام ، اور نہیں باقی رہے گا قران مگر اس کی لکیریں (الفاظ) ان کی مسجدیں آباد ہوں گی اور حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی، ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے ان کے پاس سے فتنہ نکلے گا اور ان ہی میں لوٹ آئے گا۔)
مذکورہ پیشین گوئی میں سب سے قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کی حالت کی طرف اشارہ ہے پہلی بات جو آپﷺ نے ارشاد فرمائی کہ اس میں اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا، چنانچہ آج صورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے کہ بے شمار مسلمانوں کا صرف اسلام کے نام سے رشتہ جڑا ہوا ہے اور اسلام کی تعلیمات سے ان کی پوری زندگیاں خالی ہیں ۔ دوسری بات جو فرمائی گئی کہ اس میں قرآن کی صرف لکیریں یعنی الفاظ باقی رہ جائیں گے۔ چنانچہ مسلمانوں کی موجودہ صورت حال یہی ہے کہ بے شمار مسلمانوں کے سینوں اور زبانوں پر قرآن کے الفاظ تو موجود ہیں لیکن قرآن کے معانی اور علم سے ان کے سینے زبانیں ، عمل سب خالی ہیں ۔ تیسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ ان کی مسجدیں آباد ہوں گی۔ مگر ہدایت سے خالی ہوں گی،
مسلمانوں کی موجودہ حالت اس کا بھی ثبوت پیش کررہی ہے کہ مسجدوں میں الحمد اللہ ، نمازیوں کی تعداد تو بہت ہے لیکن ہدایت کا سرچشمہ قرآن سے ان کے سینے اور زبانیں خالی ہیں۔ چوتھی بات جو آپﷺ نے فرمائی کہ ان کے علماء مخلوق کا بدترین حصہ ہوں گے، ان سے فتنہ نکلے گا اور ان ہی میں لوٹ آئے گا۔ چنانچہ مسلمانوں کی حالت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ امت بدعتوں کو سنتوں کا درجہ دینے کی بناء پر علماء حق اور توحید پرست عوام پر کفر کے فتوے داغتے ہیں اور ان ہی فتوؤں کی بناء پر بے شمار سادہ لوح مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں سے قطع کلام اور قطع سلام کئے ہوئے ہیں۔ جو امت مسلمہ کے لیے ایک فتنہ سے کم نہیں ہے، اور جہاں تک پیشین گوئی کے آخری جملہ کا تعلق ہے کہ فتنہ ان ہی میں لوٹ آئے گا۔ تو آج یہ عمل بھی شروع ہوچکا ہے اور بہت سے مسلم ممالک میں پیش آنے والے سیکڑوں قتل کے واقعات اس کی واضح نشاندہی کرتے ہیں ۔ چنانچہ جن بدعت پرست علماء کی تقریروں اور تحریروں سے بہت سے علماءِ حق اور عوام کے قتل کے واقعات رونما ہورہے ہیں، تو بدلہ میں بدعت پرست علماء بھی قتل ہورہے ہیں۔ تو یہ صورت حال فتنہ ان ہی کی طرف لوٹنے کی غمّاز نہیں تو اورکیا ہے؟
دور نبویﷺ میں قرآن کو علم دین میں کیا اہمیت تھی نبی کریمﷺ کی ایک حدیث سے اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے۔
عَنْ زِیَادِ بْنِ لَبِیدٍؓ قَالَ ذَکَرَ النَّبِیُّ صَلَیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْءًافَقَالَ ذَاکَ عِنْدَ اَوَانِ ذَھَابِ الْعِلَم قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِﷺکَیْفَ یَذْھَبُ العِلْمُ وَنَحْنُ نَقْرَأُ القُراٰنَ وَ نَقْرِءُہُ اَبْنَآئنَاَ وَیَقْرءُہُ اَبْنَآاَہُمْ اِلیٰ یَوْمِ القِیٰمۃِ فَقَال ثکِلَتْکَ اُمُّکَ زِیَادُ اِنْ کُنْتُ لَارٰکَ مِنْ اَفْقَہُ رَجُلٍ بِالمَدِیْنَۃِ اَوَلَیْسَ ہٰذِہِ الْیَہُودُ النَّصارٰی یَقْرَءُ ونِ التَّوْرٰۃ وألِانْجِیْلَ لَا یَعمَلُوْنَ بِشَیٍ مِمَّا فِیْھِمَا۔
(ابن ماجہ ، ترمذی ، احمد ، مشکوٰۃ)
ترجمہ : (حضرت زیاد بن لبیدؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کسی فتنہ کا ذکر فرمایا، اور آپﷺ نے فرمایا یہ فتنہ علم کے اٹھ جانے کے بعد رونما ہوگا ٗ راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول علم کیسے اٹھ جائے گا؟ جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں، اپنے بیٹوں کو پڑھاتے ہیں اورہمارے بیٹے اپنے بیٹوں کو پڑھائیں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تیری ماں تجھ کو گم کرے ٗ اے زیاد میں تجھ کو مدینہ کا سمجھدار آدمی سمجھتا تھا ٗ کیا یہود ونصاریٰ توریت اور انجیل نہیں پڑھتے ٗ لیکن ان میں جو کچھ ہے اس پر عمل نہیں
کرتے۔ مذکورہ حدیث سے تین اہم باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ دور نبوی ﷺ میں علم کا اصل سرچشمہ قرآن کو سمجھا جاتا تھا، دوسری بات یہ کہ اپنے بیٹوں کو قرآن پڑھانا والدین کی ذمہ داری ہے تیسری بات یہ کہ علم پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے علم کا فائدہ باقی نہیں رہتا۔ اس سلسلے میں اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن مجید کے متعلق امت مسلمہ کی غفلت یہودو نصاریٰ سے بڑھی ہوئی ہے ۔ وہ یہ کہ مذکورہ حدیث میں کہا گیا ہے کہ یہودو ونصاریٰ توریت و انجیل پڑھتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کرتے ۔ جبکہ اُمت مسلمہ کے بیشتر افراد قرآن مجید پڑھتے تک نہیں ہیں اور جو پڑھتے ہیں ان میں سے بھی بیشتر سمجھتے تک نہیں ہیں۔ اور جب سمجھتے تک نہیں ہیں تو اس پر عمل کیسے ہوگا۔ گویا کہ امت کے بیشتر افراد قرآن کے سلسلے میں تین طرح کے جرم میں مبتلا ہیں یعنی نہ پڑھنا، نہ سمجھنا اور عمل نہ کرنا۔

Share
Share
Share