عہدے امانت ہیں ان میں خیانت نہ کریں : – ڈاکٹر محمد واسع ظفر

Share
ڈاکٹر محمد واسع ظفر

عہدے امانت ہیں ان میں خیانت نہ کریں

ڈاکٹر محمد واسع ظفر
سابق ڈین، فیکلٹی آف ایجوکیشن
پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ

کسی بھی معاشرہ کو ظلم و زیادتی سے پاک کرنے ، اس میں باہمی اعتماد و اعتبار ،عدل و انصاف اور امن و سکون کی فضا قائم کرنے میں جن اقدار کا اہم رول ہوتا ہے ان میں سے ایک ا مانت داری بھی ہے۔ یہ ایک ایسی بنیادی قدر ہے جسے کسی سماج کے ہر ایک فرد کے اندر پیدا کئے بغیر اس سماج کو خوف، عدم اعتمادی، خیانت، دھوکہ دھڑی اور ظلم و زیادتی جیسی برائیوں سے پاک نہیں کیا جاسکتا اور تمام طرح کی مالی فراوانی اور دنیوی وسائل کی موجودگی کے باوجود اس میں چین و سکون اور عافیت کی زندگی گزارنا ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔

اس لئے ہر دور اور ہر معاشرہ میں خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب اور تہذیب سے ہو ، امانت داری کو پسند کیا گیا ہے۔اسلام چونکہ دین فطرت ہے اور دنیا کو زندگی گزارنے کے لئے ایک بہتر جگہ بنانا (To make the world a better place for living) اس کے مقاصد میں سے ہے اس لئے انسانیت کی اس ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے اس میں امانت داری کو ایک اہم مقام عطا کیا گیا ہے ۔جناب رسول اللہ ﷺ نے امانت داری کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا ہے ۔آپؐ اپنے خطبوں میں اکثر فرمایا کرتے تھے :’’لا ایمان لمن لا امانۃ لہ و لا دین لمن لا عہد لہ‘‘ یعنی ’’ اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانتدار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پورا نہیں ‘‘۔ (مشکوٰۃ،کتاب الایمان ،بحوالہ بیہقی فی شعب الایمان بروایت انسؓ)۔قرآن کریم میں بھی امانت کی ادائیگی پر سخت تاکید کی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :(اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّواالْاَمَٰنٰتِ اِلیٰٓ اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا ھ) ترجمہ: ’’بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو، یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمھیں اللہ کررہا ہے ،بے شک اللہ سنتا ہے دیکھتا ہے‘‘۔ (النسآء:۵۸)۔نیز فرمایا: ( اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآءِنِیْن) ترجمہ: ’’بیشک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔(الانفال ۸:۵۸)۔اس کے ساتھ ہی امانت داروں کے لئے قرآن میں جنت کی بشارت دی گئی ہے جو بڑی کامیابی کی ضمانت ہے۔ارشاد ہے:(وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِأَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُونَ * وَالَّذِیْنَ ہُم بِشَہَادَاتِہِمْ قَاءِمُونَ * وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلَی صَلَاتِہِمْ یُحَافِظُونَ * أُوْلَءِکَ فِیْ جَنَّاتٍ مُّکْرَمُونَ) ترجمہ:’’اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں، اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، یہی لوگ ( بہشت کے) باغات میں مکرم و معزز ہوں گے‘‘۔(المعارج:۳۲۔۳۵)۔
ان ارشادات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صفت امانت داری اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نزدیک کتنی اہم اور پسندیدہ چیز ہے ۔لیکن دوسری اقوام کا تو کیا گلہ کیا جائے ، خودمسلمانوں کے اندر اب یہ صفت عنقا ہوتی جارہی ہے۔ عوام تو عوام ، تعلیم یافتہ اور خواص کے طبقے میں بھی یہ صفت ناپید ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے پورا معاشرہ فساد ات کی نذر ہو تا جارہا ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ جہاں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کے تئیں ہماری عدم وفاداری اور اسلامی اقدار سے ہماری مجرمانہ روگردانی ہے وہیں اس کی دوسری وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے امانت داری کا ناقص فہم و تصور بھی ہے۔عام طور پر امانت اس چیز کو کہتے ہیں جس کا کسی کو ذمہ دار اور امین بنایا جائے یاجس کے سلسلہ میں کسی پر اعتبار کیا جائے۔اس لئے امانت داری کے سلسلہ میں لوگوں کا ذہن صرف اس طرف جاتا ہے کہ اگر کسی نے کچھ روپیہ یا مال و اسباب یا دیگر کوئی اور چیزہمارے پاس رکھ چھوڑا ہے توہم اس کے امین ہیں اور جب وہ اسے طلب کرے تو بلاکسی کمی کے ہم اسے واپس کردیں ۔ بلاشبہ یہ بھی امانت داری ہے لیکن اسلام میں امانت داری کا تصور یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔’امانت‘ دراصل ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے جس کے دائرہ میں اللہ کے وہ تمام حقوق بھی آتے ہیں جو بندوں پر عائد ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، کفارہ، نذر وغیرہ اور بندوں کے آپس کے وہ تمام حقوق بھی شامل ہیں جو ایک دوسرے پر عائد ہیں جنہیں حقوق العباد کہاجاتا ہے۔اس فکر پر سورۃ الانفال کی یہ آیت دلالت کرتی ہے:(یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَخُونُواْ اللّٰہَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُواْ أَمَانَاتِکُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ)یعنی ’’اے ایمان والو! خیانت نہ کرواللہ کی اور رسولؐ کی اور خیانت نہ کرو اپنی امانتوں میں جب کہ تم جانتے ہو‘‘۔(الانفال:۲۷)۔یہاں اللہ اور رسولؐ کی خیانت کرنے سے باز رہنے سے مراد ان کے حقوق کو تلف کرنے سے باز رہنا ہے۔درحقیقت انسان کامال واسباب ، اس کی صحت و تندرستی بلکہ پوری زندگی ہی اللہ کی امانت ہے کیوں کہ اللہ کا ارشاد ہے :(إِنَّ اللّٰہَ اشْتَرَی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃَ) یعنی ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی‘‘۔(التوبۃ:۱۱۱)۔جب جان اور مال دونوں بک گئے تواب جو یہ چیزیں ہمارے پاس موجود ہیں وہ اللہ کی امانت ہی ہوئیں اور اللہ نے اپنی عنایت سے ان میں تصرف کا اختیار دیا ہوا ہے تو ان میں اللہ کی منشاء کا خیال رکھنا واجب ہے۔
اسی طرح امانت داری کا اطلاق سیاسی اور انتظامی امور میں بھی ہے؛ ہر چھوٹا بڑا عہدہ امانت ہے اور ایک کلرک سے لے کر صدر مملکت تک ہر چھوٹے بڑے حکام، ملوک، رؤسا، وزراء سب امانتدار ہیں ، ان پر لازم ہے کہ جو عہدے انہوں نے اپنے ذمہ لئے ہیں ان کی ذمہ داری شریعت اسلامیہ کے دئے گئے اصولوں کی روشنی میں پوری کریں، ان سے عوام کے جو حقوق وابستہ ہیں ان کا خیال رکھیں اور ان میں کسی قسم کی خیانت نہ کریں۔ ان میں جو کوئی بھی خیانت کا مرتکب ہوگا ، گنہگارٹھہرے گا اور بوقت حساب پکڑا جائے گا۔اسی طرح مسجدوں کے متولی، امام و مؤذن،مدرسوں کے مدرسین و مہتمم،عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ و سربراہان، دار القضاء کے قاضی، بیت المال کے نگراں ، اوقاف کے ذمہ داران ، فلاحی اداروں کے سکریٹری و منتظمین یہ سب امانتدار ہیں۔ان سب پر یہ لازم ہے کہ اپنے دائرہ اختیار میں آنے والی ذمہ داریوں کو حسن و خوبی کے ساتھ ادا کریں بصورت دیگر اللہ کے سامنے جوابدہی کے لئے تیار رہیں۔
عہدوں کاا مانت ہونا صرف منطقی طور پر ہی نہیں بلکہ رسول پاکﷺ سے صراحتاً بھی ثابت ہے۔ مشہور صحابی ابوذرؓ نے ایک بار آپؐ سے امارت (سرکاری عہدہ) کی خواہش ظاہر کی تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’یَا أَبَا ذَرٍّ اِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَ اِنّھَا أَمَانَۃُ وَ اِنّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَ نَدَامَۃٌ اِلَّا مَنْ أَخَذَھَا بِحَقِّھَا وَ أَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ فِیْھَا‘‘ یعنی’’ اے ابوذرؓ! تو کمزور ہے اوربلاشبہ یہ (امارت) امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے سوائے اس شخص کے جس نے اس کے حقوق پورے کئے اور اس سلسلہ میں جو ذمہ داریاں اس پر عائد تھیں اس کو ادا کیا‘‘۔(صحیح مسلم،کتاب الامارۃ، باب کراھۃ الامارۃ بغیر ضرورۃ، بروایت ابوذرؓ)۔اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے نہ صرف عہدوں کو امانت بتایا بلکہ اس بات کی طرف اشارہ بھی دیا کہ جو شخص کسی منصب کی متعلقہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہواسے اس منصب سے باز رہنا چاہیے کیوں کہ آخرت میں وہ اس کی رسوائی کا سبب بن سکتا ہے۔بروز جزا اللہ رب العزت ایک ایک عہدہ دار اور ذمہ دار سے اس کی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں حساب لینے والا ہے۔نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ، فَالْاَمِیْرُ الَّذِی عَلَی النَّاسِ رَاعٍ عَلَیْھِمْ وَ ھُوَ مَسْؤُوْلٌ عَنْھُمْ، وَ الرَّجُلُ رَاعِی اَھْلَ بَیْتِہٖ وَ ھُوَ مَسْؤُوْلٌ عَنْھُمْ، وَالْمَرْاَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ بَعْلِھَا وَ وَلَدِہِ وَ ھِیَ مَسْؤُولَۃٌ عَنْھُمْ، وَ عَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلٰی مَالِ سَیِّدِہِ وَ ھُوَ مَسْؤُوْلٌ عَنْہُ، فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ‘‘ یعنی ’’تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا؛ لوگوں کا حکمراں ان کا نگراں ہے اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگراں ہے اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اورعورت اپنے شوہر کے گھر کی اور اس کی اولادکی نگراں ہے اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور آدمی کا غلام( خادم) اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا،پس تم میں سے ہر ایک شخص نگراں ہے اوراس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا‘‘۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذِکْرُ الْبَیَانِ بِاَنَّ الْاِمَامَ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ الَّتِیْ ھُوَ عَلَیْھِمْ رَاعِی، بروایت عبداللہ بن عمرؓ)۔ایک دوسری حدیث میں ان سوالات کی نوعیت کو بھی واضح کردیا گیا ہے۔آپؐ نے فرمایا: ’’اِنَّ اللّٰہَ سَاءِلٌ کُلَّ رَاعٍٍ عَمَّا اسْتَرْعَاہُ اَحَفَظَ اَمْ ضَیَّعَ‘‘یعنی ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر نگراں سے اس کی نگرانی کے بارے میں سوال کرے گا کہ کیا اس نے اس کی حفاظت کی ہے یا اسے ضائع کردیا ہے‘‘۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذِکْرُ الْاِخْبَارِ بِسُؤَالِِ اللّٰہِ جَلَّ وَ عَلَاَ کُلَّ مَنِ اسْتَرْعَی رَعِیَّۃً عَنْ رَعِیَّتِہِ ، بروایت انسؓ)۔
معاشرتی، سیاسی اور انتظامی امور میں امانت داری کا یہی وہ تصور ہے جو اسلامی اور غیر اسلامی معاشرت و نظام حکومت میں امتیاز پیدا کرتا ہے۔اسلامی نظام میں جہاں عہدے اور ذمہ داریاں امانت تصور کئے جاتے ہیں وہیں غیر اسلامی نظام میں انہیں مراعات (Privilege) سمجھا جاتا ہے جو خدا کے سامنے جوابدہی کا تصور نہیں ہونے کی وجہ سے لازماً خیانت کی طرف لے جاتا ہے۔ حکومتی عہدوں میں رہ کر جو لوگ عدل و انصاف کا معاملہ نہیں کرتے،عوام کے جو حقوق ان سے وابستہ ہیں انہیں ادا نہیں کرتے اور ان کے ساتھ احسان و خیرخواہی کا معاملہ نہیں کرتے ان کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات بہت سخت ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاہُ اللّٰہُ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَحُطْھَا بِنَصِیْحَۃٍ اِلَّا لَمْ یَجِدْ رَاءِحَۃَ الْجَنَّۃِ ‘‘ یعنی ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو کسی رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیرخواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتاتو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب الأحکام، باب مَنِ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَنْصَحْ ، بروایت معقل بن یسارؓ)۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا:’’مَا مِنْ وَالٍ یَلِی رَعِیَّۃً مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَیَمُوتُ وَ ھُوَ غَاشٌّ لَھُمْ اِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ ‘‘یعنی ’ ’ اگر کوئی شخص مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کا والی (حاکم) بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملہ میں خیانت کی اور اسی حالت میں مرگیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب الأحکام، باب مَنِ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَنْصَحْ ، بروایت معقل بن یسارؓ)۔یہاں خیانت سے مراد عہدہ کی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنا ہے جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں؛ مثلاًان کے حقوق پورے طور پر نہیں دئے،یارعایا کا جو کام ان کے ذمہ تھا اسے نہیں کیا یا جتنا وقت حکومت کی طرف سے رعایا کے لئے متعین تھا اس میں کمی کی یا دوسرے کاموں میں ضائع کردیااور کام کا حق ادا نہیں کیا یا متعلقہ شعبہ کے اشیاء و اموال جو درحقیقت عوام کا سرمایہ ہیں، کا بے جا یا ضرورت سے زیادہ استعمال کیا یا بیت المال سے اپنی مقرر شدہ تنخواہ اور بھتے (Allowances) سے زیادہ لے لیا وغیرہ۔آخرالذکر صورت کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا واضح ارشاد موجود ہے کہ آپؐنے فرمایا:’’ہم جس کو کسی کام کا عامل بنائیں اور ہم اس کی کچھ روزی (تنخواہ) مقرر کردیں پھر وہ اپنے مقرر ہ حصہ سے جو زیادہ لے گا وہ خیانت ہے‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب الخراج و الفئ و الامارۃ، باب فی ارزاق العمّال،بروایت بریدہؓ )۔یہاں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ حکومت کے وہ عہدے جو وعدوں کی بنیاد پر لئے جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے جمہوری نظام میں رواج ہے ، کی ذمہ داریوں سے روگردانی کرنادوہرے وبال کا باعث ہے؛ ایک تو یہ خیانت ہے اور دوسرے وعدہ خلافی بھی ہے۔
اسی طرح رشوت ستانی کے ذریعہ متعلقہ ادارہ اور عوام کے مفاد کو نقصان پہنچانا بھی خیانت کی ایک شکل ہے۔نیز کسی سرکاری محکمہ کا ملازم اگر رشوت لے کر کوئی ایسا کام کرے جو حکومت کے طے شدہ اصول و ضوابط کے خلاف ہو تو یہ بھی خیانت ہے کیوں کہ جس کام کے لئے حکومت نے اسے متعین کیا اور جس کام کی اسے تنخواہ دیجاتی ہے وہ کام اس نے نہیں کیا۔اور اگر رشوت کسی جائز کام کے لئے لیا تو یہ اس فرد پر ظلم بھی ہے جس سے رشوت لی۔ ایک روایت میں ہے کہ ’’ رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے اور رشوت لینے والے (دونوں) پر لعنت فرمائی ہے ‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی کراھیۃ الرّشوۃ، بروایتعبداللہ بن عمروؓ)۔آپؐ سے یہ بھی روایت ہے کہ’’رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنم میں ہیں‘‘۔(کنزالعمال،کتاب الامارت بحوالہ معجم الکبیر للطبرانی، بروایت ابن عمروؓ)۔اس لئے ہر اس شخص کو جو آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور کسی دنیوی عہدہ پر فائز ہو، اسے نہ صرف رشوت بلکہ تحفہ تحائف کو قبول کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے کیوں کہ عموماً وہ کسی مقصد کے تحت ہی دئے جاتے ہیں اور انسان ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ۔رسول اللہ ﷺ نے بھی سرکاری ملازم کا اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کے دوران کسی صاحب معاملہ سے تحفہ قبول کرنے کوسخت ناپسند کیاہے۔آپؐ نے ایک شخص کو زکوٰۃ، جزیہ اور ٹیکس وغیرہ وصول کرنے کے لئے عامل مقرر کیا، اپنے کام پورے کرکے جب وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لوٹے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! یہ مال آپؐ کا ہے اور یہ مال مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔ اس پر رسول پاکﷺ سخت نالاں ہوئے اور فرمایا: ’’أَفَلَا قَعَدْتَّ فِي بَیْتِ أَبِیْکَ وَ أُمِّکَ، فَنَظَرْتَ أَیُھْدٰی لَکَ أَم لَا‘‘ یعنی ’’پھر تم اپنے ماں باپ کے گھر ہی میں کیوں نہیں بیٹھے رہے اور پھر دیکھتے کہ تمھیں کوئی تحفہ دیتا ہے یا نہیں؟‘‘۔آپؐ نے اتنا ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مسجد میں خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد ان ہی باتوں کا مجلس عام میں اعادہ کیا اور لوگوں کو خیانت کے وبال سے خوف دلایا۔(صحیح بخاری، کتاب الأیمان و النذور، باب کَیْفَ کَانَتْ یَمِیْنُ النَّبِيِّ ﷺ، بروایت ابوحمید ساعدیؓ)۔
خیانت کی ایک اور شکل ہے ادارہ یا محکمہ کے سربراہ کو غلط مشورے دینا۔ ایک موقع پرنبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:’’ اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ ‘یعنی ’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے ‘‘۔(سنن ابن ماجہ، ابواب الادب، باب اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ، بروایت ابوہریرہؓ)۔یعنی اسے امانت داری کالحاظ کرتے ہوئے صحیح اور مفید مشورہ دینا چاہیے۔جس طرح امانت میں خیانت جائز نہیں، اسی طرح کسی کو غلط مشورہ دینا بھی جائز نہیں۔ اس حدیث کا سیدھے طور پر اطلاق سرکاری محکموں اور غیر سرکاری تنظیموں کے مشاورتی بورڈوں (Advisory Boards) پر بھی ہوگایعنی وہ سب بھی امانت دار قرار پائیں گے۔مثال کے طور پرکابینہ، پارلیمنٹ، پارلیمانی کمیٹی ، اسمبلی ، دستور ساز کونسل ، ضلع پریشد، پنچایت سمیتی، یونیورسٹیوں کی اکیڈمک کاؤنسل(Academic Council)، سنیٹ(Senate) اورسنڈیکیٹ (Syndicate)کے ممبران اور اسی طرح مساجد، مدارس، اوقاف کی کمیٹیوں وغیرہ کے ارکان یہ سب امانت دار ہیں اور ان سے ان کی امانتوں کے سلسلہ میں پوچھا جائے گا۔ ان سب کو چاہیے کہ ذاتی مفاد سے اوپراٹھ کراپنے اپنے اداروں اور قوم و ملت کی فلاح کو پیش نظر رکھ کر اپنے سربراہان کو مشورے دیا کریں ۔
خیانت کی ایک اور بھی شکل ہے ؛وہ ہے کام، منصب یا ذمہ داری کسی ایسے شخص کو سپرد کرنا جو اس کا اہل نہ ہو۔ ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔پوچھا یا رسول اللہ ﷺ! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی ؟(آپؐ نے ) فرمایا :’’جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کردئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب رفع الأمانۃ)۔اس حدیث سے بالکل واضح ہے کہ ذمہ داری نااہلوں کے سپرد کرنا بھی خیانت ہے اور دور حاضر میں تو یہ ایک بڑا فتنہ ہے کہ حکومت کے اہم مناصب یا تو تعلقات کی بنیاد پر دئے جاتے ہیں یا سیاسی ہم فکری کی بنیاد پر یا کبھی اس میں اقربا پروری کو دخل ہوتا ہے تو کبھی رشوت ستانی کو۔اس سلسلے میں ان افراد کے ساتھ ظلم ہوجاتا ہے جو حقیقتاً اس منصب کے اہل ہوتے ہیں اور نااہلوں کو منصب دئے جانے کے نتائج بد کو ایک عرصہ تک پوری قوم بھگتتی ہے۔اس لئے حاکم اعلیٰ کو چاہیے کہ اپنے دائرہ اختیار میں لائق ترین افراد کو تلاش کرکے انتظامی اختیارات ان کے سپرد کرے اور ایسے افراد کو تو بالکل نہ سونپے جو عہدے کے حریص ہوں۔رسول پاکﷺ کی سیرت سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے۔آپؐ نے ایک موقع سے ارشاد فرمایا: ’’لَنْ (أَوْ لَا) نَسْتَعْمِلُ عَلٰی عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَہُ ‘‘یعنی’’ہم ہرگز کسی ایسے شخص کو عامل مقرر نہیں کریں گے جو عامل بننا چاہے‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب استتابۃ المرتدین ، باب حُکْمِ الْمُرْتَدِّ وَ الْمُرْتَدَّۃِ، بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ )۔صحیح ابن حبان کے الفاظ اس طرح ہیں: ’’اِنَّا وَ اللّٰہِ لَا نُوَلِّی عَلٰی ھٰذَا الْعَمَلِ اَحَدًا سَاَلَہٗ، وَ لَا اَحَدًا حَرَصَ عَلَیْہِ‘‘ یعنی ’’اللہ کی قسم ! ہم اس کام کا نگراں کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کریں گے جو اسے مانگتا ہو اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو مقرر کریں گے جو اس کا لالچ کرتا ہو‘‘۔(صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذکر الزجر عن سؤال المرء الامارۃ لئلا یوکل الیھا اذا کان سائلا لھا ، بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ)۔
یہاں ایک مسئلہ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ بالا احادیث اور رسول پاکﷺ کے طرزعمل (یعنی عہدہ طلب کرنے والوں یا اس کی خواہش رکھنے والوں کو عہدہ نہ دینا ) سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنا جائز ہی نہیں لیکن جمہوری نظام میں توبہت سے سرکاری مناصب (مختلف شعبوں کی ملازمت وغیرہ ) بغیر درخواست کے مل ہی نہیں سکتے تو کیا ان سب سے دست بردار ہوجانا چاہیے ؟ ظاہر ہے کہ دست برداری کا موقف اختیار کرنا پوری قوم وملت کو سختی میں ڈالنے سے تعبیر کیا جائے گا تو ہمیں اس سلسلہ میں فقہاء کے ان اصولوں کومدنظر رکھنا چاہیے جو ان لوگوں نے سرکاری عہدہ اور منصب کو طلب کرنے کے جواز کے سلسلہ میں اپنایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی سرکاری عہدہ اور منصب کو طلب کرنا اس صورت میں جائزہے جب انسان یہ محسوس کرے کہ اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کو صحیح طور سے انجام دینے والا کوئی دوسرا شخص موجود نہیں ہے اور خود کے بارے میں اسے اندازہ ہو کہ وہ اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دے سکے گا اور اس کی نیت (جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے) جاہ و مال کی نہ ہو بلکہ خلق اللہ کی صحیح خدمت اور انصاف کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کی ہو ۔نیز اسے کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو۔فقہاء نے اپنے اس موقف پر سورۃ یوسف کی آیت ۵۵ سے استدلال کیا ہے جس میں یوسف علیہ السلام کا بادشاہ مصر سے امور خزانہ پر مامور کرنے کی درخواست کرنے کا ذکر ہے اور یہ رائے قائم کی ہے کہ یوسفؑ کا عہدے کی طلب کرنا انہی بنیادوں پر تھا۔(معارف القرآن از مفتی محمد شفیع صاحبؒ ، مکتبہ معارف القرآن، کراچی، ۲۰۰۸ ؁ء، جلد۵، صفحہ ۹۰ ، ۹۱)۔
اسی طرح جو لوگ نظام قضا (Judiciary) یامنصب قضا (Post of Adjudicator) سے وابستہ ہوں وہ بھی بدرجہ اولیٰ امانت دار ہیں۔ان پر یہ ذمہ داری عائد ہے کہ قوانین و شواہد کی روشنی میں سیاسی دباؤ اور ذاتی مفادات سے بلند ہوکر عدل و انصاف کو قائم کریں ۔یہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جس پر ملک میں امن و سکون کے قیام کاانحصار ہے،اس میں خیانت کی وجہ سے انصاف سے محروم افراد قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوسکتے ہیں اورمختلف قسم کے فساد پھیلا کر ملک کا امن و سکون غارت کرسکتے ہیں جیساکہ موجودہ عالمی منظرنامہ عکاسی کررہا ہے۔ظاہر ہے یہ اسلام کے ایک بنیادی مقصد یعنی ’’ دنیا کو زندگی گزارنے کے لئے ایک بہتر جگہ بنانا‘‘ کے خلاف ہے اس لئے اس میں خیانت اللہ اور اس کے رسول کو کیسے پسند ہوسکتی ہے؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر دور میں اس ذمہ داری کو پورا کرنا ایک مشکل امر رہا ہے ۔اسی لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص لوگوں کے درمیان قاضی بنا دیا گیا (گویا) وہ بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی طلب القضاء،بروایت ابوہریرہؓ)۔بغیر چھری کے ذبح کرنے میں جانور کو تکلیف اورمشقت چھری سے ذبح کرنے کے مقابلہ میں یقیناً زیادہ ہوگی۔تو اس حدیث میں رسول اللہﷺ کی مراد یہ ہے کہ جسے قاضی بنایا گیا اسے انتہائی مشقت اور آزمائش میں ڈال دیا گیا۔آپ ؐ نے یہ بھی فرمایا:’’قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں؛ ایک جنتی اور دو جہنمی۔رہا جنتی تو وہ ایسا شخص ہوگا جس نے حق کو جانا اور اسی کے موافق فیصلہ کیا،اور وہ شخص جس نے حق کو جانا اور اپنے فیصلہ میں ظلم کیا وہ جہنمی ہے۔اور وہ شخص جس نے نادانی سے لوگوں کا فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی القاضي یخطئُ،بروایت ابوہریرہؓ)۔اس کے بالمقابل حکمت اور حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والے قاضی کی آپؐ نے تعریف بھی کی۔ارشاد فرمایا:’’لَا حَسَدَ اِلَّا فِي اثْنَتَیْنِ: رَجَلٌ آتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَسَلَّطَہُ عَلٰی ھَلَکَتِہِ فِي الْحَقِّ وَ آخَرُ آتَاہُ اللّٰہُ حِکْمَۃً فَھُوَ یَقْضِي بِھَا وَ یُعَلِّمُھَا‘‘ یعنی ’’رشک بس دو آدمیوں پر ہی کیا جانا چاہیے؛ ایک وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا پھر اس نے اسے حق کے راستے میں خرچ کیااور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے حکمت (قرآن ، حدیث و فقہ کا علم) عطا کی اور وہ اس کے موافق فیصلے کرتا ہے اور اس کی لوگوں کو تعلیم دیتا ہے۔‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب الأحکام ، باب أَجْرِ مَنْ قَضَی بِالْحِکْمَۃِ ، بروایت عبد اللہ بن مسعودؓ)۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے ان کے تعلق سے فرمایا: ’’الْمُقْسِطُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی مَنَابِرٍ مِّنْ نُورٍ عَنْ یَّمِیْنِ الرَّحْمٰنِ، وَ کِلْتَا یَدَیْہِ یَمِیْنٌ، الْمُقْسِطُونَ عَلٰی اَہْلِیْھِمْ وَ اَوْلَادَھُمْ وَ مَا وَلُّوا‘‘ یعنی ’’(دنیا میں ) انصاف کرنے والے لوگ قیامت کے دن رحمان کے دائیں طرف نور کے ممبروں پر ہوں گے حالانکہ اس (رحمان) کے دونوں طرف دائیں ہیں، وہ لوگ جو اپنی بیویوں کے ساتھ اور اپنی اولاد کے ساتھ اور جس معاملے کے وہ نگراں بنتے ہیں اس کے ساتھ انصاف سے کام لیتے ہیں‘‘۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذِکْرُ وَصْفِ الْاَءِمَّۃِ فِي الْْقِیَامَۃِ اِذَا کَانُوا عُدُولًا فِی الدُّنْیَا، بروایت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ)۔اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ جن سات قسم کے لوگوں کو اللہ پاک قیامت کے دن عرش کے سائے میں جگہ دیں گے ان میں ایک عادل حکمراں بھی ہوگا۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذِکْرُ اِظْلَالِ اللّٰہِ جَلَّ وَ عَلَا الْاِمَامَ الْعَادِلَ فِیْ ظِلِّہِ یَومَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہُ ، بروایت ابوہریرہؓ)۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آخرت میں صرف وہ لوگ سرخرو ہوں گے جنہوں نے دنیا میں اپنے منصب اور عہدوں کو امانت سمجھ کر اس کی ذمہ داریوں کوعدل و احسان کے ساتھ انجام دیا ہوگا جو کہ آسان کام نہیں ہے اور جس نے اپنی ذمہ داریوں میں خیانت کی ہوگی وہ وہاں رسوا اور ذلیل کیا جائے گا اور جہنم اس کا ٹھکانہ ہوگا ۔اس لئے اول درجہ میں تو ہمیں جاہ طلبی کے مرض سے ہی چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے کہ اکثر اوقات یہ دنیا میں بھی آزمائش اور رسوائی کا سبب ہوجاتا ہے جیسا کہ آج کل عام طور پر دیکھنے کو ملتا ہے اور آخرت کا معاملہ تو فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کی صورت میں اور بھی سنگین ہے۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے پیارے صحابی عبدالرحمٰن بن سمرہؓ کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی: ’’یَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَۃَ، لَا تَسْأَلِ الْاِمَارَۃَ، فَاِنَّکَ اِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ مَسْأَلَۃٍ وُکِلْتَ اِلَیْھَا، وََ اِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْأَلَۃٍ أُعِنْتَ عَلَیْھَا ‘‘ یعنی ’’اے عبد الرحمٰن بن سمرہ! کبھی امارت (حکومت کے کسی عہدہ) کی درخواست نہ کرنا،کیوں کہ اگر تمھیں یہ مانگنے کے بعد ملے گا تو تم اسی کے حوالے کردئے جاؤگے (اللہ پاک اپنی مدد تجھ سے اٹھالے گا کہ تو جانے تیرا کام جانے) اور اگر وہ عہدہ تمھیں بغیر مانگے مل گیا تو اس میں (اللہ کی طرف سے ) تمھاری اعانت کی جائے گی‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب الأحکام ، باب مَنْ سَأَلَ الْاِمَارَۃَ وُکِلِ اِلَیْھَا ، بروایت عبد الرحمٰن بن سمرہؓ)۔اس حدیث میں ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ عہدہ طلب کرنے پر اللہ کی طرف سے مدد بھی اٹھ جاتی ہے اورا نسان آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے اور اگر عہدہ بغیر طلب کئے ملتا ہے تو اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ اس لئے جہاں تک ممکن ہو خود عہدہ طلب کرنے سے ہمیں پرہیز کرنا چاہیے اور جب حکومتی یا ملی سطح سے کسی منصب کی پیشکش کی جائے تو اپنی صلاحیت اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ اس کی ذمہ داریوں کو ہم کماحقہ ا دا کرسکیں گے یا نہیں ، اگر نہیں تو ہمیں وہ منصب قبول ہی نہیں کرنا چاہیے تاکہ دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ رہ سکیں اور اگر قبول کریں تو عہدے کو امانت سمجھ کر اس کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ بروز حساب کہیں ہم ان لوگوں میں نہ شامل ہوں جن کے بارے میں رسول پاکﷺ نے ان الفاظ میں پیش گوئی کی ہے : ’’ وَیْلٌ لِلْاُمَرَاءِ ، لَیَتَمَنَّیَنَّ اَقْوَامٌ اَنَّھُمْ کَانُوا مُعَلَّقِیْنَ بِذَوَاءِبِھِمْ بِالثُّرَیَّا، وَ اَنَّھُمْ لَمْ یَکُوْنُوا وُلُّوْا شَیْءًا قَطُّ‘‘یعنی ’’ سرکاری اہلکاروں کے لئے خرابی ہے، عنقریب کچھ لوگ اس بات کی آرزو کریں گے کہ انہیں ان کے بالوں کے ساتھ اوج ثریا پر لٹکا دیا جاتا، لیکن انہیں کسی چیز( حکومتی عہدے) کا اہلکار مقرر نہ کیا جاتا‘‘۔(صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذکر الاخبار عمّا یتمنّی الأمراء انّھم ما ولّوا ممّا ولّوا شیئا، بروایت ابوہریرہؓ)۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس سیہ کار کی لغزشوں کو بھی معاف فرمائے اور اپنی منشاء کے مطابق بقیہ زندگی گزارنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔نیز امت کے اندر امانت داری کے مٹتے ہوئے احساس کو بیدار فرمائے اور اس سلسلہ میں راقم کی اس حقیر سی کوشش کو قبول فرمائے۔آمین!
[ رابطہ :ای میل : موبائل:09471867108]

Share
Share
Share