حکایت ایک بادشاہ کی : – مرسلہ : علی شان

Share


حکایت ایک بادشاہ کی

مرسلہ : علی شان

پرانے وقــتوں كـى بات ہے كہ ايک بادشاه كے دربار ميں ايک اجنبى حاضر هوا اور بادشاه سے نوكرى كا طلب گار هوا – بادشاه نے جب اسكى قابليت دريافت كى تو اس نے بتايا كہ وه سياسى (عربى مين سياسى كا مطلب هوتا هى كه افهام و تفهيم سے مسئلے كا حل نكالنے والا اور معامله فهم آدمى) ہے – بادشاه كے پاس پہلے ہى سياستدانوں كى لمبی قطار تهى ليكن اتفاق سے اس كے اصطبل كا مسئول يا ذمه دار فوت هو چكا تها چنانچہ بادشاه نے اسے اپنے خاص اصطبل كا مسئول بنا ديا-

كچھ دن بعد بادشاه نے اس شخص سے اپنے سب سے عزیز گهوڑے كے بارے ميں دريافت كيا تو اس نے كہا كہ يه گهوڑا نسلی نہیں ہے – بادشاه نے وه گهوڑا بڑا مہنگا خريدا تها چنانچہ بادشاه نے اس شخص كو حاضر كرنے كا حكم صادر كيا جو دور كہيں جنگل ميں گهوڑے سدهانے اور سدها كر بيچنے كا كاروبار كرتا تها – جب وه شخص حاضر هوا تو بادشاه نے اس شخص سے دریافت کیا كہ تم نے تو مجهے یہ گهوڑا اصيل اور نسلى کہ کر بيچا تها ليكن يہ تو نسلى نہیں – اس شخص نے جواب ديا كہ بادشاه سلامت گهوڑا ہے تو نسلى ليكن اسكى پيدائش كے وقت اسكى ماں مر گئى تهى چنانچہ يہ گهوڑا ايک گائے كا دودھ پى كر اور اسی گائے کے زیر سایہ پلا ہے اور بچپن اس نے گائے كے ساتھ ہى گذارا ہے
بادشاه نے اس شخص كو رخصت كيا اور اپنے اصطبل كے مسئول كو بلا كر پوچها كہ تم كو كيسے پتا چلا كہ گهوڑا اصيل نہیں – اس نے جواب ديا كہ گهوڑا جب گھاس كهاتا ہے تو سر نيچے كر كے گاے كى طرح گهاس كهاتا هے جب كہ نسلى گهوڑا گهاس منہ ميں لے كر سر اٹها ليتا ہے ۔
بادشاه اس كى فراست سے خاصا متاثر اور حيران هوا اور اسكى گهر ميں اناج ، ، گھی ، بهنے دنبے اور پرندوں كا اعلى گوشت بطور انعام بھجوایا ۔
اس کے ساتھ ساتھ اس كو اپنى بيگم كے محل ميں تعينات كر ديا – كچھ عرصه گذرنے كے بعد اس نے اپنے مصاحب سے اپنى بيگم كے بارے ميں رائے مانگی تو اس نے جواب ديا كہ اس كے طور اطوار تو ملكہ جيسے ہیں ليكن یہ شهزادى (كسى بادشاه كى بيٹى) نہیں ہے – يہ سن كر بادشاه كے پيروں تلے سے زمين نكل گئى كيونكہ اسكى بيوى ايک بادشاه كى بيٹى تهى – بادشاه نے اپنے حواس درست کیے اور اپنى ساس كو بلا بهيجا اور معامله اس كے گوش گزار كيا – بادشاه كى ساس نے اسے جواب ديا كہ حقيقت يہ هے كہ تمہارے باپ نے ميرے مياں سے ہمارى بيٹى كي پيدائش پر ہی اس كا رشته مانگ ليا تها ليكن همارى بيٹى 6 ماه كى عمر ميں فوت هو گئى چنانچہ ہم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے واسطے اس بچی کو اپنى بيٹى بنا ليا اور اس كى پرورش كر کے تمہارے ساتھ اس کی شادی کر دی۔
بادشاه نے مصاحب سے دريافت كيا كہ تم كو كيسے پتا چلا كہ ميرى بيوى شهزادى نہیں ہے – اس نے كہا كہ اس كا سلوک خادموں كے ساتھ ٹھيک نہيں اور بادشاه اس طرح نہیں كرتے۔
بادشاه اپنے مصاحب كى فراست سے مزید متاثر هوا اور بہت سا اناج اور بهيڑ بكرياں بطور انعام اس مصاحب كو دين اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے دربار ميں متعين كر ديا – كچھ عرصه گزرنے كے بعد اس نے اپنے اس مصاحب سے اپنے بارے ميں دريافت كيا – مصاحب نے كہا كہ اگر جان كى امان پاؤں تو عرض كروں – بادشاه نے اس سے جان كى امان كا وعده كيا تو اس نے كہا كہ تم هو تو بادشاه ليكن نہ تم بادشاه كے بچے ہو نہ تو تمہارا چال چلن بادشاہوں جيسا ہے۔
یہ سن کر بادشاه كے پاؤں تلے زمين نكل گئى امان كا وعده وه پہلے ہی دے چكا تها چنانچہ وه اس گتهى كو بهى سلجهانے اپنى والده كے محل جا پہنچا تاكہ پتا چلے كہ ماجرا كيا ہے؟
اس كى والده نے اس كى بات سن كر كہا كہ ہاں تم بادشاه كے نہیں بلكہ ايک چرواہے كے بيٹے ہو۔
بادشاه نے مصاحب كو بلايا اور اس سے پوچها كہ تمہیں كيسے پتا چلا كہ ميں بادشاه كا بيٹا نہیں ہوں – مصاحب نے بادشاہ کو جواب دیا كہ بادشاه جب كسى كو انعام و اكرام ديا كرتے ہیں تو ہيرے موتی اور جواہرات كى شكل ميں ديتے ہيں ليكن تم جب بهى كسى كو انعام و اكرام سے نوازتے ہو تو اناج اور بهيڑ بكرياں اور كهانے پينے كي چيزيں عنايت كرتے ہو يہ اسلوب كسى بادشاه كے بيٹے كا نہیں بلكہ كسى چرواہے كے بيٹے كا ہی ہو سكتا ہے..!!

Share
Share
Share