حسرت جئے پوری……….. بس کنڈاکٹر سے گیت کار تک
55 ؍موسیقاروں کے ہمراہ ، 350؍فلموں میں 2000؍سے زائد گیتوں کے خالق
تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤگے،( پگلا کہیں کا ) جانے کہاں گئے وہ دن ( میرا نام جوکر ) خدا بھی آسماں سے جب زمیں پر دیکھتا ہوگا( دھرتی) بے دردی بالماں تجھکو میرا من یاد کرتا ہے، ( آرزو )دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی ( تیسری قسم) لال چھڑی میدان کھڑی،( جانور ) چاہے کوئی مجھے جنگلی کہے،(جنگلی )بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے،( سورج ) گمنام ہے کوئی بدنام ہے کوئی ، ہمیں کالے ہیں تو کیا ہوا دل والے ہیں ( گمنام ) دل کے جھروکے میں تجھ کو بٹھا کے ( برہمچاری ) غم اٹھانے کے لئے میں تو جئے جاؤنگا ( میرے حضور )،یہ میرا پریم پتر پڑھ کر کہ تم ناراض نہ ہونا ( سنگم )اپریل فول بنایا تو ان کو غصہ آیا،تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے چشم بد دور ،میں زندگی میں ہر دم روتا ہی رہا ہوں ،جیا بے قرار ہے،ہم تجھ سے محبت کرکے صنم ،چھوڑ گئے بالم (برسات )سے لیکرسن سائبا سن پیا ر کی دھن
( رام تیری گنگا میلی ) جیسے مقبول زمانہ گیتوں کے خالق حسرت جئے پوری 15؍اپریل 1922ء کوراجستھان کے گلابی شہر جئے پور میں پیدا ہوئے تھے ان کے نانا فدا حسین ایک شاعر تھے تو حسرت نے بھی ان سے زانوئے ادب طئے کیا ، حسرت جئے پوری مشہور شاعر حسرت موہانی سے متاثر تھے یہی وجہ رہی کہ انہوں نے اپنا تخلص بھی حسرت رکھ لیا جبکہ ان کا اصل نام محمد اقبال حسین تھا 1940ء میں تلاش معاش کہ سلسلہ میں ممبئی آگئے اور مہاراشٹر اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ میں ماہانہ 40؍روپیوں کی تنخواہ پر ملازمت اختیار کرلی 5؍ڈسمبر 1988ء کو میں نے حسرت جئے پوری سے ان کے مکان واقع کھار ممبئی میں انٹرویو لیا تھا اس وقت حسرت جئے پوری نے بتا یا تھا کہ وہ بس کنڈاکٹر کی ملازمت کے ساتھ ساتھ مشاعروں میں بھی اپنا کلام سنایا کرتے تھے اسی دوران ڈونگری میں پرتھوی راجکپور کی صدارت میں منعقدہ ایک مشاعرہ میں حسرت جئے پوری نے اپنی مشہور نظم \’مزدور\’سنائی تھی مشاعرہ کے اختتام پر پرتھوی راجکپور نے حسرت جئے پوری کو گلے لگاکر کہا کہ میرا لڑکا ( راجکپور ) \’ برسات \’بنا رہا ہے اور مجھے پورا یقین ہیکہ تم اس میں بہترین گیت لکھوگے شاید حسرت جئے پوری بھی اسی موقع کی تلاش میں تھے اور جلد ہی راجکپور سے جاملے اورپھر فلم برسات سے پانچ نوجوانوں کی ٹولی ایک نئی پہچان کے ساتھ فلمی دنیا کے افق پر نمودار ہوئی اور کامیابی نے راتوں رات ان کے قدم چوم لئے یہ ٹولی تھی اداکار، فلم ساز و ہدایت کار راجکپور،موسیقار جوڑی شنکر اور جئے کشن، گیت کار شیلی شیلندر اورحسرت جئے پوری کی جو زائد از 40؍سال تک یہ ٹولی فلمی دنیا میں دھوم مچاتی رہی اور شائقین کے دلوں پر راج کرتی رہی حسرت جئے پوری نے 55؍سے زائد موسیقاروں کے ہمراہ کام کیازائد از 500؍فلموں میں2؍ہزار سے زائد گیت لکھے حسرت جئے پوری ایک لمبے عرصہ تک اپنے فلمی گیتوں کے ذریعہ شائقین کے کانوں میں اپنے نغمات ، غزل، گیت اور گانوں کی شیرینی انڈیلتے رہے پیار ، محبت،غم و الم،ہجر و وصال غرض انسانی زندگی کا ایسا کوئی جذبہ و پہلو نہیں جسے حسرت جئے پوری نے اپنے نغمات میں سمویا نہ ہو حسرت جئے پوری کے لاتعداد گیت چل نکلے کئی فلمیں ہٹ ہوئیں ۔ برسات، آوارہ، شری 420، چوری چوری، سنگم، جس دیش میں گنگا بہتی ہے،میرا نام جوکر،تیسری قسم،دل اپنا اور پریت پرائی، آرزو، جنگلی، جانور، بلف ماسٹر، بدتمیز،پگلا کہیں کا،پرنس ،سسرال ، سورج، میرے حضور،دل ایک مندر، راجکمار،انداز،ہمالیہ سے اونچا، دھرتی، اوربرہمچاری جیسی ان گنت فلمیں شامل ہیں حسرت جئے پوری نے دوران ملاقات کہا تھا کہ ان کے دور میں سچویشن کے حساب سے گیت لکھے جاتے تھے تا کہ گیتوں میں سچویشن باقی رہے 1951ء میں حسرت جئے پوری نے فلم ہلچل کے لئے اسکرین پلے بھی لکھا تھا۔ اسی ملاقات میں حسرت جئے پوری نے مجھے بتایا تھا کہ جب تک راجکپور بقید حیات تھے انہیں آر کے اسٹوڈیوز کی طرف سے ماہانہ 500؍ روپئے روانہ کئے جاتے تھے اور راجکپور کے انتقال کے بعد یہ رقم بند کردی گئی ایک موسیقار نے حسرت جئے پوری کے سامنے کہا تھاکہ آج کل کی فلموں میں ان کا گیت لکھنا مشکل ہے اور لکھے بھی گئے تو ویسی مقبولیت نہیں ملے گی اس بات سے حسرت جئے پوری بہت رنجیدہ ہوئے اور راجکپور سے جا ملے اس وقت ایک لمبے عرصہ کے بعد راجکپور اپنے لڑکے راجیو کپور کو لیکر فلم رام تیری گنگا میلی بنارہے تھے تو حسرت جئے پوری نے ان سے کہا کہ وہ صرف ایک گیت اس فلم کے لئے لکھنا چاہتے ہیں اور اس کی ایک بہت بڑی وجہ بھی ہے جس پر راجکپور نے حسرت جئے پوری سے اس فلم کے لئے ایک گیت لکھوایا تھا جبکہ اس فلم کی موسیقی اور دوسرے گیت موسیقار رویندر جین نے لکھے تھے تا ہم حسرت جئے پوری کا لکھا ہوا گیت اس سال کا سب سے سوپر ہٹ گیت ثابت ہواتھا جس کے بول تھے \’ سن سا ئبا سن ، پیار کی دھن
میں نے تجھے چن لیا تو بھی مجھے چن ۔حسرت جئے پوری کو فلمی گیت لکھنے میں شہرہ حاصل تھا ان کے ساتھی گیت کار شیلندر نے بطور پروڈیوسر ایک فلم بنائی تھی تیسری قسم جس کے اداکار راجکپور اور وحیدہ رحمن تھے فلم کے گیت انہوں نے حسرت جئے پوری سے بھی لکھوائے تھے ۔اس فلم کا ایک گیت آج بھی بہت مقبول ہے دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی کاہے کو دنیا بنائی لندن کی ورلڈیونیورسٹی راؤنڈ ٹیبل نے حسرت جئے پوری کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی تھی شاید یہ اردو کے پہلے شاعر و گیت کار تھے۔ ان کے کئی گیت دیگر زبانوں بشمول انگریزی میں بھی ترجمہ کئے گئے تھے1966ء میں فلم سورج کے گیت بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے پر حسرت جئے پوری کو فلم فےئر ایورڈ حاصل ہواتھا جبکہ دوبارہ 1972ء میں راجیش کھنہ کی فلم انداز کے گیت \’ زندگی ایک سفر ہے سہانہ یہاں کل کیا ہو کس نے جانا \’ پر بھی حسرت جئے پوری کو فلم فےئر ایورڈ حاصل ہواتھاوہیں حسرت جئے پوری 1962ء میں فلم سسرال کے گیت تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے،1963ء میں فلم پروفیسر کے گیت ائے گلبدن پھولوں کی مہک کانٹوں کی چبھن ،کے لئے،1966ء ہی میں فلم آرزو کے گیت اجی روٹھ کر اب کہاں جائیے گا،اور 1968ء میں فلم برہمچاری کے گیت دل کے جھروکے میں تجھ کو بٹھا کے یادوں کو تیری میں دلہن بناکے،کے لئے بھی فلم فئیر ایوارڈ کے لئے وہ نامزد ہوئے تھے۔ لیکن افسوس کہ اپنی زندگی کے 55؍سے زیادہ قیمتی سال فلمی دنیا کے حوالے کرنے والے حسرت جئے پوری اپنی زندگی کے آخری ایام میں فلمی دنیا میں ہی گمنام بن کر رہ گئے تھے ان کے بھانجے موسیقار انو ملک نے چند فلموں میں ان سے گیت بھی لکھوائے لیکن پہلی جیسی کامیابی نہیں مل پائی ۔ اس وقت حسرت جئے پوری نے ایک رسالہ کو دئے گئے اپنے انٹرویومیں کہا تھا کہ \’انو ملک مجھے ننگا کر نا چاہتا ہے \’ !
اپنی ملاقات کے دوران میں نے حسرت جئے پوری سے پوچھا تھا کہ اتنے سالوں تک اپنے گیتوں کے ذریعہ دھوم مچانے کے باؤجود کیا بات ہیکہ آج کل آپ کا کام اور نام کم ہی نظر آتا ہے تو خلاؤں میں گھورتے ہوئے حسرت جئے پوری نے کہا تھا کہ فلم انڈسٹری میں گروپ بندی لازمی ہے جیسا کہ ہم پانچوں کا گروپ تھا ۔حسرت جئے پوری نے بھلے ہی بے روزگار رہ کرہی سہی اپنی باقی ماندہ زندگی گذاری ہو لیکن گھٹیا اور نچلی سطح کے گیت لکھ کر خود کو نئے زمانہ سے ہم آہنگ کرنے کی بھو ل کبھی نہیں کی یہ ان کا ظرف تھا۔
بالآخر سینکڑوں مقبول زمانہ گیتوں کے خالق حسرت جئے پوری طویل مدت کی علالت کے بعدجگر اور گردہ کے عارضہ کے باعث
17؍ستمبر 1999ء کو ممبئی کے ایک خانگی ہسپتال میں انتقال کرگئے۔
جب کبھی بلند پایہ شاعری، کانوں میں رس گھولتے نغموں اور درد بھرے گیتوں و نغموں کی بات چلے گی تو حسرت جئے پوری کا نام اور کام
سب سے اوپر رہے گا۔ اور آنے والی نسلیں ان کے گیتوں کے ذریعہ ہی صحیح فلمی گیتوں کا معیار طئے کریں گی۔
تصاویر :
حسرت جئے پوری
حسرت جئے پوری،راجکپور،شنکر، جئے کشن ،مکیش اور دیگر
محمد رفیع ، حسرت جئے پوری اور جئے کشن
۲ thoughts on “حسرت جئے پوری……….. بس کنڈاکٹر سے گیت کار تک ۔از۔ یحییٰ خان”
Mazmoon pasand aaya.mubarak janab
مدیرمحترم ۔۔ مضمون کی اشاعت پرمیں آپکاممنون ھوں ۔۔نوازش ھےآپکی ۔۔ شکریہ