عاشورہ کا روزہ
نبی اکرم ﷺ کے قول وعمل کی روشنی میں
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبّ الْعَالَمِےْن، وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیمِ وَعَلٰی اٰلِہِ وَاَصحَابِہِ اَجْمَعِین۔
محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو عاشورہ کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں دسواں دن۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور برکت کا حامل ہے۔ اس دن میں حضور اکرم ﷺ نے روزہ رکھا تھا اور مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔ پہلے تو یہ روزہ واجب تھا پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو مسلمانوں کو اختیار دے دیاگیا کہ چاہیں یہ روزہ رکھیں یا نہ رکھیں البتہ اس کی فضیلت بیان کردی گئی کہ جو روزہ رکھے گا اس کے سال گذشتہ کے چھوٹے گناہ معاف کردئے جائیں گے ۔
پہلے یہ روزہ ایک دن رکھا جاتا تھا لیکن یہودیوں کی مخالفت کے لئے آخر میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو ان شاء اللہ نویں محرم کو بھی روزہ رکھوں گا لیکن اس خواہش پر عمل کرنے سے قبل ہی آپﷺکا وصال ہوگیا۔
عاشورہ کے روزہ سے متعلق چند احادیث:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور عاشورہ کے دن بیت اللہ کو غلاف پہنایا جاتا تھا۔جب رمضان فرض ہوا تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ (صحیح بخاری ص ۲۱۷)دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قریش جاہلیت میں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور حضور اکرم ﷺ بھی اس وقت یہ روزہ رکھتے تھے۔ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں بھی روزہ رکھا اور اس روزہ کا بھی حکم دیا ۔ جب رمضان فرض ہوا تو عاشورہ (کے روزے کا حکم) چھوڑ دیا گیا، جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔ (صحیح بخاری ص ۲۵۴، ص ۲۶۸)
حضرت رُبیع بنت مُعوِذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے عاشورہ کی صبح انصار کے گاؤں میں اعلان کروایا کہ جس نے صبح کو کھاپی لیا ہو وہ بقیہ دن پورا کرے (یعنی رکا رہے )اور جس نے ابھی تک کھایا پیا نہیں ہے وہ روزہ رکھے ۔ فرماتی ہیں کہ وہ بھی یہ روزہ رکھتی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتی تھیں اور ان کے لئے اون کا کھلونا بناتی تھیں ۔جب کو ئی بچہ کھانے لئے روتا تویہ کھلونا اس کو دے دیتیں یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوتا۔ (صحیح بخاری ج۱ ص ۲۶۳، صحیح مسلم ج ۱ ص ۳۶۰) حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے عاشورہ کے دن ایک آدمی کو بھیجا جو لوگوں میں یہ اعلان کررہا تھا کہ جس نے کھالیاوہ پورا کرے یا فرمایا بقیہ دن کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے نہیں کھایا وہ نہ کھائے ( یعنی روزہ رکھے )۔ (بخاری ج ۱ ص ۲۵۷)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ یہودیوں نے کہا یہ اچھا دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو غلبہ اور کامیابی عطافرمائی، ہم اس دن کی تعظیم کے لئے روزہ رکھتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں، پھر آپ ﷺ نے بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ج۱ ص ۲۶۸) حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ یہودی عاشورہ کی تعظیم کررہے ہیں اور اس دن روزہ رکھتے ہیں، اس کو عید بنارہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہم اس روزہ کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ج۱ ص ۲۶۸، ۵۶۲)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو کسی دن کے روزہ کا اہتمام اور قصد کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے عاشورہ کا روزہ اور رمضان کے مہینے کا۔ (بخاری ج۱ ص ۲۶۸) یعنی ان روزوں کا آپ ﷺبہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لائے تو حضور اکرم ﷺ کے منبر پر عاشورہ کے دن (کھڑے ہوکر) فرمایا: اے اہل مدینہ کہاں ہیں تمہارے علماء، میں نے حضور اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ یہ عاشورہ کا دن ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کا روزہ فرض نہیں کیا ہے، میں روزے سے ہوں، جو چاہے روزہ رکھے جوچاہے روزہ نہ رکھے۔ (صحیح بخاری ج ۱ ص ۲۶۲)
عاشورہ کے روزہ کا ثواب:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : مجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن کا روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ (صحیح مسلم) حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ سال گزشتہ کے گناہ معاف فرمادیں گے۔ (ترمذی ج ۱ ص ۱۵۱) ان احادیث میں گناہ سے صغائر گناہ مراد ہے، کبائر گناہ کے لئے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
عاشورہ کے روزہ رکھنے کا طریقہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور لوگوں کو اس کا حکم دیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہودونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ اگر آئندہ سال زندہ رہا تو ان شاء اللہ نویں کو (بھی) روزہ رکھوں گا لیکن آئندہ سال آپ ﷺ کا وصال ہوگیا۔ (مسلم ج۱ ص ۳۵۹)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے روزہ رکھو یا ایک دن بعد۔ (مسند احمد ج ۱ ص ۲۴۱) یہ حدیث بعض نسخوں میں’’ او‘‘ کی جگہ پر ’’و او‘‘ کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ اگر واو (یعنی اور) کے ساتھ روایت ثابت مان لی جائے تو پھر تین روزہ رکھنا ثابت ہوگا۔ اس طرح عاشورہ کے روزے رکھنے کی ۴ شکلیں بنتی ہیں : ۹ ، ۱۰ اور ۱۱ تینوں دن روزے رکھ لیں۔ ۹ اور ۱۰ دو دن روزہ رکھ لیں۔ ۱۰ اور ۱۱ دو دن روزہ رکھ لیں۔ اگر کسی وجہ سے ۲ روزے نہیں رکھ سکتے تو صرف ایک روزہ عاشورہ کے دن رکھ لیں۔
خلاصۂ کلام:حضور اکرم ﷺکی حیاتِ طیبہ میں جب بھی عاشورہ کا دن آتا، آپ ﷺروزہ رکھتے ، لیکن وفات سے پہلے جو عاشورہ کا دن آیا تو آپ ﷺنے عاشورہ کا روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ۱۰ محرم کو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کے ساتھ ہلکی سے مشابہت پیدا ہوجاتی ہے اِس لئے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ ۹ یا ۱۱ محرم الحرام کو رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے۔ لیکن اگلے سال عاشورہ کا دن آنے سے پہلے ہی حضور اکرم ﷺکا وصال ہوگیا اور آپ کو اس پر عمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ حضور اکرم ﷺکے اس ارشاد کی روشنی میں صحابۂ کرام نے عاشورہ کے روزہ کے ساتھ ۹ یا ۱۱ محرم الحرام کا ایک روزہ ملاکر رکھنے کا اہتمام فرمایا، اور اسی کو مستحب قرار دیا اور صرف عاشورہ کاروزہ رکھنا خلافِ اولیٰ قرار دیا ۔ یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشورہ کا روزہ رکھ لے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا بلکہ اس کو عاشورہ کا ثواب ملے گا لیکن چونکہ آپ ﷺکی خواہش ۲ روزے رکھنے کی تھی اس لئے اس خواہش کے تکمیل میں بہتر یہی ہے کہ ایک روزہ اور ملاکر دو روزے رکھے جائیں۔
وضاحت:بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ﷺکی وفات کے تقریباً ۵۰ سال بعد ۶۱ ہجری میں نواسۂ رسول ﷺ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی وجہ سے اس دن کی اہمیت ہوئی ہے حالانکہ اس دن کی فضیلت واہمیت نبی اکرم ﷺ کے اقوال وعمل کی روشنی میں پہلے ہی سے ثابت ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کے اقوال وعمل کی روشنی میں ذکر کیا گیا، ہاں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم شہادت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس بابرکت دن کا نتخاب کیا جس سے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی کی مزید اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
———
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
(www.najeebqasmi.com)