گاندھی جینتی : – محمد رضی الدین معظم

Share

گاندھی جینتی

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘
، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340

لبریز جوش حب وطن سب کے جام ہوں
سر شار ذوق و شوق دل خاص و عام ہوں (حالیؔ )
تاریخ شاہد ہے کہ مختلف ادوار میں ایسے رہنما پیدا ہوئے ‘ جنہوں نے ملک کی محبت میں تن‘ من ‘ دھن قربان کیا۔ ایسی ہی ملک کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا ہوجائے۔ یہی شاعر کی بھی خواہش ہے۔ بقول حالیؔ گاندھی جی کا دل اس ذوق و شوق سے سرشار تھا۔ ملک کی آمادی کی تاریخ جب بھی اور جس عنوان سے بھی لکھی جائے گی‘ گاندھی جی کانام سرفہرست ہوگا۔

یہی وہ ناتوان اور کھادی والے باپو ہیں جو اپنے کارہائے نمایاں کی وجہ سے امر ہوگئے‘جن کی یاد ہم ۲ اکتوبر کو بطور ’’یوم پیدائش مناتے ہیں۔‘‘ گاندھی جی ۲ اکتوبر ۱۸۶۹ء کو پور بندر میں پیدا ہوئے تھے‘ لیکن وطن کی محبت میں اپنے گھر بار کو چھوڑ دیا اور فقیرانہ زندگی کو گلے لگا لیا تھا‘ کیونکہ وہ ایک سچے محب وطن تھے۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ کن حالات اور واقعات نے گاندھی جی کو متاثر کیا اور ملک کی محبت کس طرح ان کے رگ و پے میں سما گئی۔
تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کرنے پر ہمیں ان واقعات کا علم ہوجاتا ہے‘ جب گاندھی جی ۱۸۹۳ء میں ایک ندوستانی فرم کے شیر کی حیثیت سے جنوبی آفریقہ گئے۔ آپ نے وہاں دیکھا کہ ان کے ہم وطن ہندوستانیوں کے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا ہے۔ انہیں ’’قلی‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ ایک دن پریٹو ریا ٹرین سے جارہے تھے۔ ان کے پاس اول درجہ کا ٹکٹ تھا‘ لیکن یورپین لوگوں نے انہیں زدوکوب کرکے گاڑی کے باہر دھکیل دیا۔ اسی واقعہ سے گاندھی جی کی زندگی میں ایک نیا موڑ آتا ہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ سچ کے لئے ایک فیصلہ کن جنگ کرنی ہے۔ جنوبی آفریقہ کیہندوستانیوں کو متحد کرنے کے لئے پریٹوریا گئے۔ نٹال کانگریس بناکر اپنے کام میں مشغول ہوگئے۔ ۳۱ جولائی ۱۹۰۷ء میں پریٹوریا مسجد کے صحن میں یورپین سلوک کے خلاف آواز اٹھائی۔ حکومت نے ستایا۔ گاندھی جی پیچھے نہیں ہٹے۔ انہوں نے اپنی عمر کا عزیز ترین حصہ آفریقہ میں ہی گذارا۔ یہیں آپ نے کئی یورپین مصنّفین کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ مغربی تعلیم سے متاثر ہوکر ہندوستانیوں کے ذہنوں میں قومی بیداری کی روح پھونک دی۔ اس لئے مغربی مفکر لارڈ رونالڈ اسٹے مغربی تعلیم کے اثر کے بارے میں رقمطراز ہے۔
"The New wine of Western Learning went into the hands of the Young Man. They Drank Deep from the source of Liberty and Nationalism. Their Poem and books were full of love, humanity, justice and freedom.
آفریقہ کے بعدہندوستان کا دورہ کیا۔ ان کی مشکلات اور مظالم کو آنکھوں سے دیکھا۔ باپو نے یہ سب محسوس کیا۔ ایک واقعہ نے اور دھچکا لگایا۔ باپو نے اپنے بھائی کے مقدمہ کے سلسلہ میں راجکوٹ میں ہی وائسرائے کے نمائندہ سے ملنے والے تھے۔ اگرچہ وہ ایجنٹ انگلینڈ میں مل چکا تھا۔ لیکن گاندھی جی کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آیا اور آفس سے باہر نکال دیا۔ اس واقعہ نے بھی ان کے دل و دماغ میں یہ بات واضح کردی کہ انگریز ہندوستان میں کتنی بے جا سختی کرتے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے
’’اس دھچکے نے میری زندگی کا راستہ بدل دیا۔‘‘
باپو نے خود کفیل بننے کے لئے چرخا سیکھا اور ہاتھ سے بنی کھادی عمر بھر پہنتے رہے۔ اس کا مقصد دیشی سامان کا استعمال اور ودیشی سامان کی مخالفت کرنا تھا۔ اس نے تحریک آزادی میں اہنسا اور ستیہ گرہ کا نیا عمل جاری کیا۔
۱۹۱۷ء میں چمپارن ستیہ گرہ اور ۱۹۱۸ء میں برڈولی میں ستیہ گرہ کی۔
۱۹۲۰ء سے گاندھی جی کانگریس کے رہنما بن گئے۔ ۱۹۲۰ء سے ۱۹۴۷ء تک کا زمانہ گاندھی یگ کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں وہ اپنے اصولوں پر گامزن نظر آتے ہیں۔
بچپن سے گاندھی جی آزادی اور انصاف کے خواہاں تھے۔ ان میں امن‘ محبت اور قربانی کا جذبہ بدرجہ اتم جاتا ہے۔ وہ کسی سے نفرت کرنا نہیں جانتے تھے۔ بڑا نسواں اور جوہانسبرگ میں آپ پر کئی حملے ہوئے‘ لیکن دشمنوں کو بھی معاف کردیا۔ واقعی گاندھی جی محبت‘ ہمدردی اور اخلاق کا مجسمہ تھے۔
انہیں خدا پر پورا اعتماد تھا۔ سچائی میں ہی وہ خدا کی تلاش کرتے تھے۔ وہ محبت ‘ امن اور سچائی کے ساتھ چل کر اپنے مقاصد میں کامیاب ہونا چاہتے تھے۔ وہ انسانی ہمدردی اور محبت و ایثار کے پتلے تھے۔ اس لئے گاندھی جی نے تلاش حق میں تفصیل کے ساتھ ان باتوں کو پیش کیا ہے۔
اگرچہ گاندھی سچے اصول پرست انسان تھے۔ فقیرانہ زندگی بسر کرنے کے ساتھ مرتے دم تک اس کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ان میں نفس پر قابو پانے کی زبردست طاقت تھی۔ وہ روحانی قوت کے مالک تھے۔ اس لئے وہ اس طاقت کو اہمیت دیتے تھے۔ اس بات کو پنولین بونا پارٹ نے بھی تسلیم کیا ہے۔ وہ کہتے ہے:
"There are only two powers in the world. They are the power of the sword and the power of spirit.”
گاندھی جی نے دنیا کو یہ بات ثابت کر بتایا کہ تلوار سے بھی بڑی طاقت روحانی ہے۔ وہ ہمیشہ سچائی پر اعتماد رکھتے تھے۔ ان کی زندگی میں خدا پر یقین و اعتماد اور تزکیۂ نفس کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں‘ مثلاً ۱۹۳۳ء میں ہر یجنوں کا مسئلہ زیر غور تھا۔
۷ مئی ۱۹۳۳ء کو ان پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ آدھی رات کو ایک دم ان کے آنکھ کھل گئی اور ان کو ایسا محسوس ہوا کہ ان کے اندر کوئی آواز اٹھ رہی ہے۔ کہتی ہے کہ ۲۱ دن کا برت رکھیں اور کل سے ہی رکھیں۔ اس کے بعد گاندھی جی چپ چاپ ہوگئے اور اگلی صبح انہوں نے برت کا اعلان کردیا۔
وہ برت رکھتے تو کفارے کے طور پر اپنے عقیدوں کو جانچنے کے لئے اور ان لوگوں کے لئے بھی جو سچائی کو قبول نہیں کرتے ہیں۔
’’اس سے جسم کو اذیت دینا چاہتا ہوں‘ لیکن فاقہ کرکے مرنا نہیں چاہتا‘ بلکہ چاہتا ہوں کہ خدا مجھے اس آزمائش کے بعد بھی زندہ رکھے۔‘‘ دیکھئے ان کے خیالات کتنے اونچے اور سچے تھے۔ ان کے برت کا سبب کرشمہ آپ کی روحانی قوت کی بدولت تھا۔
ان سب چیزوں کا استعمال گاندھی جی نے حصول آزادی کے لئے کیا۔ ملک کو آزاد کرا کے ایک سچے محب وطن بن گئے۔ اگرچہ ملک کی آزادی کے بعد وہ تعمیری کام کرتے رہے۔ لیکن ملک کے لوگوں نے انہیں چین سے جینے نہ دیا۔ آزادی کے بعد ملک کے دو حصے ہوگئے۔ تقسیم کے بعد فرقہ وارانہ نفرت نے پریشان کردیا۔ آپ نے ملک کا پیدل دورہ کیا۔ لیکن پھر بھی فرقہ پرست عناصر نے ان کا خاتمہ کردیا۔
جمعہ کا مبارک دن تھا۔ ۳۰ جنوری ۱۹۴۸ء کی شام ۵ بج کر دس منٹ ہوچکے تھے۔ اپنی پوتیوں ‘ منورما اور روما کے سہارے آگے بڑھ رہے تھے کہ ایک تعلیم یافتہ شخص گوڈ سے نامی خاکی یونیفارم پہنے بھیڑ کو چیرتے آیا‘ سلام کیا اور پستول نکال کر آپ پر تین گولیاں چلائیں۔ ۱۰ منٹ کے اندر ہندوستان کا درخشندہ ستارہ ہمیشہ کے لئے صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔ لیکن اس کی یاد ان دلوں میں باقی ہے۔ تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ واقعی آج ہمیں اپنی زندگی کو سرسبز و شاداب رکھنے کے لئے ایسے ہی رہنماکی اشد ضرورت ہے‘ کیونکہ شخصیتیں ‘ سماج کے آدرشوں کو اس کی نظر کے سامنے وضاحت کے ساتھ رکھنے سماج کی دنیاوی اور روحانی ترقی پر مہر لگانے اور اسے سماجی تہذیب کا جزو بنانے کے لئے ضروری ہیں۔ گاندھی جی کی موت بقول علامہ محوی ؔ ؂
ترابے وقت مرنا‘ لہو کو بھی رلاتا ہے
جو یا د آتی ہے تیری سانپ دل پہ لوٹ جاتا ہے
———-
Md. Raziuddin Moazzam

محمد رضی الدین معظم
Share
Share
Share