شعری مجموعہ: دوپہر کی دھوپ
شاعر : قیوم کنولؔ
مبصر – ڈاکٹر صفیہ بانو اے.شیخ
محمد قیوم محمد ایوب پٹھان نام اور قیوم کنولؔ قلمی نام سے اردو ادب میں مشہور ہیں ۔ ۱۴ جون ۱۹۴۵ء میں فتح پور ( یوپی) میں پیدا ہوئے ۔اس بِنا پر وہ قیوم کنولؔ فتح پوری بھی کہلائے ۔ تعلیم و تربیت گجرات کے شہر احمدآباد میں ہوئی۔ اور یہی پر مقیم ہو کراپنی ۷۰ سالہ کی زندگی گزار کر بھی وہ اپنی دلچسپی کے باعث اردو ادب کی خدمات کو بخوبی انجام دے رہے ہیں۔
قیوم کنول ؔ نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز ۱۹۷۷ء میں ’مدحتِ نبی ﷺ ( نعتیہ گلدستہ) سے کیا ۔یہ ان کے نعتوں کاوہ مجموعہ ہیں ، جس میں ان کی خوبصورت اور نایات نعتوں کا ذخیرہ موجود ہیں ۔اس کے بعد ان کا دوسرانعتیہ کلام کا مجموعہ ’آبشارِ نور ‘ ﷺ ( نعتیہ گلدستہ) نام سے ۱۹۷۸ء منظر عام پر آیا تھا ۔ اس مجموعے میں بھی ان کی خوبصورت اور دلکش نعتوں کا کلام ہیں۔ قیوم کنول ؔ نے نعت کے علاوہ غزل پر طبع آزمائی کی جس کے سبب ان کا پہلا شعری مجموعہ بعنوان ’ سنگ و گل ‘ کے نام سے ۱۹۷۹ء میں شائع ہوا ۔اس مجموعے سے متعلق سید ظفر ہاشمی( ایڈیٹر ’گلبن‘ ۱۹۷۹۔۰۳۔۱۸)بقول’ سنگ و گل قیوم کنول کی ۱۴ سالہ ریاضت کا ثمرہ ہے ۔ اس مجموعہ میں ۱۰۰ غزلیں شامل ہیں ۔ ان غزلوں کے ذریعے انھوں نے بحر و بر کی وسعتوں کا سفر کر ڈالا ہے ۔ ان کے ذہن و فراست نے شش جہت کی گردش کی ہے ۔ انسانی زندگی کو ہر پہلو سے دیکھا ہے پرکھا ہے ۔ اس لیے ان کی غزلوں کا ہر شعر دل و دماغ میں اترتا محسوس ہوتا ہے ۔ ‘‘اس کے بعد ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’ اپنا اپنا رنگ ‘ کا نام سے ۱۹۹۸ ء میں منظر عام پر آیا ۔ قیوم کنول ؔ کے اس مجموعے کو ادبی حلقوں نے خوب پسند کیا تھا اس سلسلے میں سید معراج جامی ( کراچی ،پاکستان) اپنے تاثرات ان الفاط میں لکھے کہ ’ قیوم کنولؔ زندگی اور معاشرے کے بہترین عکاّس ہیں ۔ ان کی فکر و سوچ کا زاویہ الفاظ کی بندش اور مضمون کی انفرادیت انھیں رویتی شاعروں سے ممتاز کرتی ہے اور یہی ان کا وہ خاص اسلوب ہے جس کی بنا پر ہم قیوم کنول کو منفرد شاعر کہہ سکتے ہیں ۔ وہ ذخیرہ ‘ نامی سہ ماہی کے مدیر بھی رہ چکے ہیں یہی نہیں ان کے فلمی گیتوں کے تین البم ’ پیار کے زخم ، میری یادیں ، شہیدوں کے نام شردھاسُمن ‘ مشہور ہوئے ہیں ۔
قیوم کنولؔ کا تازہ ترین تیسراشعری مجموعہ ’ دوپہرکی دھوپ‘ کے نام سے مئی ۲۰۱۷ ء میں شائع ہوا ۔ انہوں نے اپنی اس کتاب کے فلیپ کور پر انٹرنیٹ اور کمپیوٹر گرافک کی مدد سے خوبصورت چھاتا لیے لڑکی کا عکس کھینچا ہے۔ اسی فلیپ کور پر زیرکتاب کے عنوان سے مناسبت رکھتا ہوا خوبصورت سا شعر درج ہے ۔دوپہر کی دھوپ ایک عذاب کی مانند ہوتی ہے ،جو انسان کے رنگ و روپ کو بگاڑ کے رکھ دیتی ہے ۔
رکھ دیتی ہے بگاڑ کے انسا ں کا رنگ و روپ
ہوتی ہے اک عذاب کنولؔ دوپہر کی دھوپ
اس کتاب کے صفِ اوّل پر شعری مجموعے کا شاعر کا نام لکھا ملتا ہے وہی دوسرے صفحہ پر کتاب کی اشاعت کی معلومات دیکھنے کو ملتی ہے وہیں صفحہ تیسرے پر مصنف نے اس کتاب کو اپنی اہلیہ کے مرحومہ عصمت بی بی پٹھان نام پیش کیا اور ساتھ ہی انہوں نے اپنی زندگی میں نہیں ہونے کا احساسات اور جذبات کو بھی شاعرانہ انداز میں یوں ملاحظہ فرمایا :
یہ دعا رب سے میری دن ہو یا کہ رات ہو
قبر پر تیر ی ہمیشہ نور کی برسات ہو (ص ۔۳)
اس کتاب کے حوالے سے مختلف ادبی شخصیتوں نے اپنے اپنے تاثرات الگ الگ عنوان سے پیش کیے ان میں ڈاکٹر نذیر فتح پوری : بعنوان : کوہساروں میں راستہ بنانے ولا فنکار قیوم کنولؔ ، عظیم اختر ۔دہلی: بعنوان : احمد آباد کا ایک گوشہ نشین شاعر قیوم کنولؔ ، رونق افروزؔ : بعنوان :دوپہر کی دھوپ اور قیوم کنولؔ ؟،پروفیسر انور ظہیر انصاری : بعنوان : قیوم کنول کے شعری اَبعاد ، ڈاکٹر مسیح الزماں انصاری: بعنوان : قیوم کنولؔ ….ایک مطالعہ، ڈاکٹر جمال احمد : بعنوان : عصرِ حاضر کا حساس شاعر قیوم کنولؔ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ۔
قیوم کنولؔ نے اپنے شعری مجموعے میں اظہارِ غزلوں سے قبل انہوں نے ’اپنی بات‘ کے عنوان سے اپنے خیالات سے روبر کرایا بقول قیوم کنولؔ : مجھے اپنے اس شعری مجموعہ ’ دوپہر کی دھوپ ‘ کی اشاعت پر بے حد خوشی ہے ۔ خوشی اس لیے ہے کہ میں یہ کارنامہ خود انجام دے رہا ہوں ۔ وگرنہ کتنے ہی کتنے ہی ادیب و شاعر ایسے تھے کہ جنہوں نے عمر بھر خونِ دل جلا جلا کر اپنا تخلیقی سرمایہ تو اکٹھا کیا لیکن اُنھیں کتابی شکل نہ سے سکے ۔ جس میں بیشتر کتاب کا ارمان سینے میں دبائے اللہ کی پیارے ہوگئے ۔ ‘‘ ( صفحہ۔ ۶۸)
شاعر نے جس مقصد سے یا دلچسپی سے اس کتاب کی اشاعت کے لیے جو کوششیں کی ہیں وہ قابلِ ستائش اور دادِ تحسین کے مستحق ہیں ۔قیوم کنول ؔ حساس طبیعت کے مالک ہیں جس کے باعث وہ اپنی بات میں کہیں طنز سے کام لیتے، تو کہیں نصیحت سے ،تو کہیں اپنے دوستوں کا شکریہ ادا کرتے نظر آئے ۔
غزل میں شاعر کے رومانی جذبات عموماً محبوبہ کے روپ میں ،یاکسی عزیز چاہنے والے کے لیے ہوتے ہے اس بات کو قیوم کنولؔ نے یوں فرمایا :
موسم بھی گرمیوں کا نہ ہم کو پتہ چلے
جب تم رہو قریب تو ٹھنڈی ہوا چلے
زلفِ سیہ بکھیر کے یوں چل رہے ہیں وہ
جیسے کہ آسمان پر کالی گھٹا چلے (ص ۔ ۸۸)
قیوم کنول ؔ نے اپنی غزلوں میں اپنے غمِ حیات کے درد و کرب کو پیش کیا ہے عمر کا اتنا طویل عرصہ گزارنے کے بعد شاعر اب بوڑھا ہو چکا ہے جیسے قیوم کنولؔ ۔ عصر حاضر میں ہر ماں باپ اپنے بچوں کے روییّ سے اس قدر حیران پریشان ہیں کہ اس احساس سے شاعر بھی باقی نہ رہ سکا۔ تب وہ اپنی اولاد کے حوالے سے کچھ اچھی بری باتیں شکایتیں کرتا، تو مانو وہ دنیا کی تمام اولاد کی طرف اشارہ کر رہا ہو :
اُس پہ کوئی بار ڈالو اور نہ کوئی کام دو
ہوچکا ہے باپ بوڑھا ، اب اسے آرام دو (۸۹)
راحتِ دل کا کوئی جام نہیں دیتے ہیں
میرے بچے مجھے آرام نہیں دیتے ہیں ( ص ۱۱۱)
شاعر جس جگہ اور مقام پر رہتا ہے وہ اس کی زندگی سے ایسے جڑے جیسے پھول اور خوشبو،اگر وہ اپنے جگہ سے خوش ہوتا ہے تب وہ خوشی کے اظہار کرتا ہے لیکن جب جگہ سکون آمیز نہ تو محل بھی جھونپڑا لگنے لگتا ہے قیوم کنولؔ نے اپنی زندگی اور اطرافِ ماحول کو اس قدر اپنے اوپر حاوی کردیا کہ ان کے تقریباْ اشعار میں گھر اور مکان کے حوالے سے باتیں دیکھنے کو ملتی ہے۔
سچائیوں کی بات کیا آئی زبان پر
پتھر برس پڑے ہیں ہمارے مکان پر ( ص ۱۵۲)
لائیں کہاں سے شیش محل ہم جہان میں
رہتے ہیں ہم تو آج بھی خستہ مکان میں ( ص ۱۵۳)
گھِر کے خطروں میں یوں گھروں میں رہے
ناؤ جیسے سمندروں میں رہے ( ص ۱۳۸)
تہذیبِ نو کے رنگ میں ڈھلنے نہیں دیا
موحول ہم نے گھر کا بدلنے نہیں دیا (ص ۱۴۶)
انسان کی زندگی میں دوستی اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہیں لیکن بعض اوقات دوستی جب دشمنی میں بدل جاتی ہے تب ایک ٹھیس ، چوٹ لگتی ہے قیوم کنول ؔ نے اپنی زندگی میں بدلتے حالات کے سبب دوستوں کے بدلتے رُخ کا اندازہ بھانپ لیا تھا اور اسی درد و کیفیت کے اظہار خیال کو اشعار میں یوں ملاحظہ فرمایا:
بہتر ہے ہر لحاظ سے باہر کی دوستی
رکھیئے نہ دوستوں سے کبھی گھر کی دوستی (ص ۷۳)
غیروں کی طرح ہم سے نہ کھنچ کر رہا کرو
اِک دن تو اپنی دوستی کا حق ادا کرو (ص ۱۳۲)
مشکوک دوستوں کو رکھا صحبتوں سے دور
سانپوں کو آستین میں پلنے نہیں دیا (ص ۱۴۶)
شعری مجموعہ’ دوپہر کی دھوپ ‘قیوم کنولؔ جیسے عام آدمی کے غمِ حیات کا نگار خانہ ہے جو ادبی اور شعری معیار کے مطابق بھلے ہی اعلیٰ درجے کا نہ ہو غمِ حیات کی کرب ناکیوں کے حقائق کا ایک ناقابلِ فراموش گلدستہ ضرور ہے۔
———