سید الشہدا ء
حضرت امام حسینؓ اور ان کی عظیم شہادت
محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
واقعہ کربلاکو آج تقریباً 1373 سال گذر چکے ہیں مگر یہ ایک ایسا المناک اور دل فگار ( غمزدہ) سانحہ ہے کہ پورے ملت اسلامیہ کے دل سے محو (زائل) نہ ہو سکا۔ یہ واقعہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے وابستہ ہے۔ آپ ﷺ کے نواسے، حضرت علی کّرم اللہ وجہہ‘ اور بی بی فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے لخت جگر تھے۔ اسلامی تاریخ میں دورِ خلافت کے بعد یہ واقعہ اسلام کی دینی، سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہواہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے اس عظیم واقعہ پر بلا شک و شبہہ اور بلا مبالغہ دنیا کے کسی بھی دیگر حادثہ پر نسلِ انسان کے اس قدرآنسو نہ بہے ہونگے۔ بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ حضرت امام حسینؓ کے جسم مبارک سے جس قدر خون دشتِ کربلا میں بہا تھا اس کے بدلے پوری ملتِ اسلامیہ ایک ایک قطرہ کے عوض اشک ہائے رنج و غم کا ایک سیلاب بہا چکی ہے اور لگاتار بہا رہی ہے اور بہاتی رہے گی۔
اللہ تعالیٰ نے واقعہ کربلا کو ہمیشہ کے لئے زندہ و جاویدہ بنا دیا تاکہ انسان اور خصوصاً ایمان والے اس سے عبرت حاصل کرتے رہیں۔
حضرت امام حسینؓ کی ولادت مبارکہ 5 شعبان 04 ھ کو مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ سرکار اقدس ﷺ نے آپ کے کان میں آذان دی ، منھ میں لعابِ دہن ڈالا اور آپ کے لئے دعاء فرمائی پھر ساتویں دن آپ کا نام حسین رکھا اور عقیقہ کیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ اور لقب ’’ سبط رسول ‘‘ تھا وریحانۂ رسول ہے۔ حدیث شریف میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کا نام شبیر و شبر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا انہیں کے نام پر حسن اور حسین رکھا۔ (صواعق محرقہ، صفحہ 118) اس لئے حسنین کریمین کو شبیر اور شبر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ سریانی زبان میں شبیر و شبر اور عربی زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنیٰ ایک ہی ہیں۔ ایک حدیث پاک میں ہے کہ اَلْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ اِسْمَانِ مَنْ اَھْلِِ الْجَنَّۃ۔ ترجمہ حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں۔(صواعق محرقہ، صفحہ 1186) ابن الا عرابی حضرت مفضل سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نام مخفی (پوشیدہ) رکھے یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے نواسوں کا نام حسن اور حسین رکھا۔ ( اشرف المؤید، صفحہ 70)۔
آپ کے فضائل:
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بہت حدیثیں وارد ہوئی ہیں۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے حضرت یعلیٰ بن مرہّ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پر نور سید عالم ﷺ نے فرمایا حُسَیْنُ مِنِّی وَ اَنَا مِنَ الْحُسَیْن حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔یعنی حسین رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ سے اور حضور اکرم ﷺ کو حسین رضی اللہ عنہ سے انتہائی قرب ہے۔ گویا کہ دونوں ایک ہیں۔ حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر حضور ﷺ کا ذکر ہے ۔ حسین رضی اللہ عنہ سے دوستی حضور سے دوستی ہے۔ حسین رضی اللہ عنہ سے دشمنی حضور ﷺ سے دشمنی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ سے لڑائی کرنا حضور ﷺ سے لڑائی کرنا ہے۔ حضور سرورِ کائنات ﷺ ارشاد فرماتے ہیں اَ حَبَّ اللّٰہُ مَنْ اَ حَبَّ حُسَیْنَا جس نے حسین سے محبت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی (مشکوٰۃ صفحہ 571) اس لئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا حضور ﷺ سے محبت کرنا ہے اور حضور ﷺ سے محبت کرنا اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا ہے۔( مرقاۃ شرح مشکوٰۃ صفحہ 605) حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا جسے پسند ہو کہ کسی جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے تو وہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو دیکھے۔ (نور الابصار صفحہ 114) اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا چھوٹا بچہ کہاں ہے ؟ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دوڑے ہوئے آئے اور حضور ﷺ کی گود میں بیٹھ گئے اوراپنی انگلیاں داڑھی مبارک میں داخل کر دیں۔ حضور ﷺ نے ان کا منہ کھول کر بوسہ لیا اور فرمایا۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُحِبُّہُ فَاَحِبَّہُ وَ اَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہ‘ ’’ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور اُس سے بھی فرما جو اس سے محبت کرے(نور الابصار صفحہ 114) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ حضور آقائے دو عالم ﷺ نے صرف دنیا والوں ہی سے نہیں چاہا کہ وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کریں بلکہ خدائے تعالیٰ سے بھی عرض کیا کہ تو بھی اس سے محبت فرما ۔ اور بلکہ یہ بھی عرض کیا کہ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت فرما۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لعابِ دہن ( رال، تھوک) کو اس طرح چوستے ہیں جیسے کہ آدمی کھجور چوستا ہے۔ یَمْتَصُّ لُعَابَالْحُسَیْن کَمَا یَمْتَصُ الرَّجُلُ التَّمَرَۃَ (نور الابصار صفحہ 114) اور مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما کعبہ شریف کے سایہ میں تشریف فرما تھے انہوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو تشریف لاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا ۔ ھَذَا اَحَبُّ اَھْلِ الْاَرْضِ اِلیٰ اَھْلِ السَّمَآ ءِ الْیَوْمَ آج یہ آسمان والوں کے نزدیک تمام زمین والوں سے زیادہ محبوب ہیں۔ (اشرف لمؤیہ، صفحہ 65) ۔اب وہ روایتیں ملاحظہ فرمائیں جو دونوں صاحبزادوں کے فضائل پر مشتمل ہیں۔ حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ اَلَحَسَنَُ وَ الْحُسَیْنُ سَیَّدَ شَبَابِ اَھْلِ الْجَنّۃَ حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ (مشکوٰۃ شریف صفحہ 570) اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔اِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنُ ھُمٰا رُ یُحَانِیْ مِنَ الدُنْیَا حسن اور حسین دنیا کے میرے دو پھول ہیں (مشکوٰۃ شریف صفحہ 570) اس حدیث پاک کی ترجمانی حضرت مولانا احمد رضا خان نے بڑے پیارے انداز میں فرمائی ہے ۔
کیا بات ہے رضا اس چمنستان کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں حسین اورحسن پھول
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ کے ایک کندھے پر حضرت حسن کو اور دوسرے کندھے پر حضرت حسین کو اُٹھائے ہوئے تھے یہاں تک کہ ہمارے قریب تشریف لے آئے اور فرمایا ھَذَانِ اِبْنَا یَ وَ اِبْنَا اِبْنَتِی یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں۔ اور پھر فرمایا اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُحِبُّہمَاُ فَاَحِبَّہمَاُ وَ اَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہمَا اے اللہ ! میں ان دونوں کو محبوب رکھتا ہوں تو بھی ان کو محبوب رکھ اور جو ان سے محبت کرتا ہے ان کو بھی محبوب رکھ۔ (مشکوٰۃ شریف صفحہ 570) اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے دو عالم ﷺ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ ایک کندھے پر حضرت حسن کو اور دوسرے کندھے پر حضرت حسین کو اٹھائے ہوئے تھے یہان تک کہ ہمارے قریب تشریف لے آئے اور فرمایا مَنْ اَ حَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَبْغَضُھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ جس نے ان دونوں سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی (اشرف المؤیہ صفحہ 71)۔ ایک دن نبی کریم علیہ السلام اپنی بیٹی حضرت خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدہ کونین نے عرض کی ابا جان آج صبح سے میرے دونوں شہزادے حسن و حسین گم ہیں اور مجھے کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ ابھی حضور علیہ السلام نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام فوراً حاضر خدمت ہوئے اور عرض کی یا رسو ل علیہ السلام انھمافی مکانٍ کدا وکدا و قد وکل بھما ملک یحفظھمایعنی دونوں شہزادے فلاں مقام پر لٹیے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ان کی حفاظت کے لئے ایک فرشتہ مقرر کر دیا ۔حضرت زہرا ء سے فرما دو کہ وہ پریشان نہ ہووے۔( نزہۃالمجالس جلد 2صفحہ 233) – پس حضور علیہ السلام اس مقام پر گئے تو دونوں شہزادے آرام کر رہے تھے اور فرشتے نے ایک پر نیچے اور دوسرا اوپر رکھا ہوا تھا۔)مشکٰوۃ شریف صفحہ570 ۔ ترمذی شریف جلد 2 صفحہ(218
یتیموں اور مسکینوں سے آپ کا حسن سلوک:یتیموں سے اور مسکینوں سے حسن سلوک اور شفقت و محبت کا معاملہ رکھنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت کی بشارت دی ہے جو بہت بڑا انعام و اکرام ہے۔ ربِ کائنات کا ارشاد گرامی ہے (پارہ 29 رکوع 19) اپنی منتیں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی پھیلی ہوئی ہے اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر (یعنی ایسی حالت میں جب کہ خود انہیں کھانے کی حاجت و خواہش ہو) مسکین اور یتیم اور قیدی کو ان سے کہتے ہیں ہم تمہیں خاص اللہ کے لئے کھانا دیتے ہیں تم سے کوئی بدلہ یا شکر گذاری نہیں مانگتے۔ بیشک ہمیں اپنے رب سے ایک ایسے دن کا ڈر ہے جو بہت ترش نہایت سخت ہے تو انہیں اللہ نے اس دن کے شر سے بچا لیا اور انہیں تازگی اور شادمانی دی۔ ان آیات کریمہ کا شانِ نزول یہ ہے حضرت حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ایک موقع سے بیمار پڑگئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کی کنیزفَضّہ نے ان کی صحت کے لئے تین روزوں کی منت مانی۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں صحت دی اور نذر (منت) کی وفا کا وقت آیا تو سب نے روزے رکھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک یہودی سے تین صاع جو لائے۔ حضرت خاتونِ جنت نے ایک ایک صاع تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کا وقت آیا اور روٹیاں سامنے رکھی گئیں تو پہلے روز مسکین دوسرے روز یتیم اورتیسرے روز قیدی نے آکر سوال کر دیا تو تینوں روز ساری روٹیاں ان لوگوں کو دے دی گئیں تو پہلے روز صرف پانی سے افطار کر کے اگلا روزہ رکھ لیا گیا تو ان کا یہ عمل ربِ کائنات کی بارگاہ میں اس قدر مقبول ہوا کہ یہ آیات کریمہ ان کی شان و عظمت اور ان کے حق میں نازل ہوئیں جن میں انہیں بڑے انعام و اکرام اور جنت کی بشارت دی گئی ہے تو یہ آیات کریمہ اگر چہ مخصوص لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں جن میں انہیں بڑے انعام و اکرام اور جنت کی بشارت دی گئی ہے لیکن ان میں عام مومنوں کے لئے تعلیم ہے کہ اگر وہ بھی مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں سے حسن سلوک اور شفقت و محبت کریں تو انہیں بھی طرح طرح کے انعام و اکرام اور جنت سے سرفراز کیا جائے گا اور رب کائنات انہیں بھی آخرت کی پریشانیوں سے محفوظ اور جنت کی راحتوں سے لبریزکرے گا۔
آپ کی شہادت کی شہرت:
سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی شہادت بھی شہرتِ عام ہو گئی۔ حضرت علی ، حضرت فاطمہ زہرا اور دیگر صحابہِ کبار و اہلِ بیت کے جان نثار رضی اللہ عنہما سبھی لوگ آپ کے زما نۂ شیر خوارگی ہی میں جان گئے کہ یہ فرزند ارجمند ظلم و ستم کے ہاتھوں شہید کیا جائے گا اور ان کا خون نہایت بے دردی کے ساتھ زمین کربلا میں بہایا جائے گا۔ جیسا کہ ان احادیث کریمہ سے ثابت ہے جو آپ کی شہادت کے بارے میں وارد ہیں۔حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک روز حضورﷺ کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہو کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کی گود میں دیا پھر میں کیا دیکھتی ہوں کہ حضور ﷺ کی مبارک آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ کیا حال ہے ؟ فرمایا میرے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے یہ خبر پہنچائی کہ اِنَّ اُمَّتِیْ سَتَقْتُلْ اِبْنِی میری امت میرے اس فرزند کو شہید کرے گی حضرت اُم الفضل فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ! کیا اس فرزند کو شہید کرے گی! حضور ﷺ نے فرمایا ہاں پھر حضرت جبرئیل میرے پاس اس کی شہادت گاہ کی سرخ مٹّی بھی لائے (مشکوٰۃ صفحہ 572) اور ابن سعد اور طبرانی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا آپ ﷺ نے فرمایا اِنَّ اِبْنِیْ اَلْحُسَیْنُ یُقْتَلْ بَعْدِ بِاَرْضِ الطَّفِ میرا بیٹا میرے بعد ارضِ طِف میں قتل کیا جائے گا۔ اور جبرائیل میرے پاس وہاں کی مٹی بھی لائے اور مجھ سے کہا کہ یہ حسین کی خوابگاہ (متقل) کی مٹی ہے (صواعق محرقہ، صفحہ 118) طف قریب کوفہ اس مقام کا نام ہے جس کو کربلا کہتے ہیں۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری دینے کے لئے اللہ سے اجازت طلب کی جب وہ فرشتہ اجازت ملنے پر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا تو اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور حضور ﷺ کی گود میں بیٹھ گئے تو آپ ان کو چومنے اور پیار کرنے لگے۔ فرشتے نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ حسین سے پیار کرتے ہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا اِنَّ اُمَّتَکَ سَتَقْتُلْہ‘ آپ کی امت حسین کو قتل کر دے گی۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان کی قتل گاہ کی (مٹی) آپ کو دکھا دوں۔ پھر وہ فرشتہ سرخ مٹی لایا جسے اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے کپڑے میں لے لیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اے ام سلمہ ! جب یہ مٹی خون بن جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس مٹی کو ایک شیشی میں بند کر لیا جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن خون ہو جائے گی۔ (صواعق محرقہ، صفحہ 118) اور ابن سعدحضرت شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ صفین کے موقع پر کربلا سے گذر رہے تھے کہ ٹھہر گئے اور اس زمین کا نام پوچھا لوگوں نے کہا اس زمین کا نام کربلا ہے کربلا کا نام سنتے ہی آپ اس قدر روئے کہ زمین آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ پھر فرمایا کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں ایک روز حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ ﷺ رو رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا ابھی میرے پاس جبرائیل آئے تھے ا نہوں نے مجھے خبر دی اِنَّ وَلَدِیْ الْحُسَیْنَ یُقْتَلْ بِشَاطِیَّ الْفُرٰتِ بِمَوْ ضِعٍ یْقَالُ لَہ‘ کَرْبَلَاءِ میرا بیٹا حسین دریائے فرات کے کنارے اس جگہ شہید کیا جائے گا جس کو کربلا کہتے ہیں۔ اور ابونعیم اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قبر گاہ سے گذرے تو آپ نے فرمایا یہ شہیدوں کے اونٹ بٹھانے کی جگہ ہے اور اس مقام پر کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کے خون بہائے جائیں گے۔ آلِ محمد ﷺ کے بہت سے جوان اسی میدان میں شہید کئے جائیں گے اور زمین و آسمان ان پر روئیں گے۔ (مشکواۃ شریف صفحہ 572 ۔ خصائص کبریٰ جلد 2 صفحہ 126) آپ کی فضیلت کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ امام الانبیا حضور ﷺ نے انہیں اسی دنیا میں نہ صرف جنَّتی ہونے کی بشارت دی بلکہ نوجوان جنَّتیوں کا سردار قرار دیا۔ اور ان کی محبت کو ایمان کا حصّہ بتاتے ہوئے یہ فرمایا کہ ’’ اے خدا میں حسین سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور جو کوئی حسن و حسین سے محبت رکھے ان سے تو بھی محبت فرما ‘‘ بے شک ہر مسلمان ان سے محبت رکھتا ہے اور محبت کی سب سے بڑی علامت ( نشانی) یہی ہے کہ ہر نماز میں درود شریف میں نبی رحمت ﷺ کے ساتھ ان کے آل و اولاد پر بھی درود بھیجتا ہے۔
معرکہ حق وباطل اور امام حسین:امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت سے معرکہ حق و باطل جو کربلا میں رونما ہوا اس نے ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد 56 ھ میں یزید ولی عہد مقرر ہوا اس کے خلیفہ بنتے ہی طوائف الملوکی شروع ہو گئی اور اسلامی خلافت کے بجائے بادشاہیت و آمریت نے پنجہ گاڑنا شروع کر دیا۔ تو افضل الجہاد کی نظیر پیش کرتے ہوئے کہ ظالم و جابر کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے اسکی عملی تصویر بن کر امام حسین رضی اللہ عنہ دین اسلام کی سر بلندی کی خاطر اُٹھ کھڑے ہوئے کہ دین حق دین اسلام اس طریقہ کا داعی نہیں یہ اسلامی روح کے خلاف ہے اور یہ پیغام دیا کہ مومن حکومت و سلطنت ظلم و جبر اور طاقت و قوت کے آگے ہتھیار نہیں ڈال سکتا ہے اور یزیدکی امارت و بیعت کا انکار کرتے ہوئے اس کی اطاعت قبول نہ فرمائی اس کی بیعت کو ٹھکرا دیا۔اور یہ اعلان کر دیا کہ
مرد حق باطل سے ہرگز خوف کھا سکتا نہیں
سر کٹا سکتا ہے لیکن سر جھکا سکتا نہیں
آپ کو یزیدی لشکر کے خطرناک عزائم کا انکشاف ہوا تو حُرمت کعبہ کی خاطر وہاں سے نکلنے کا ارادہ کیا اسی درمیان کوفیوں کے ہزاروں عقیدت بھرے خطوط ملے مگر آپ ان پر کیسے بھروسہ کرتے چونکہ ان ہی لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی شہید کیاتھا۔ اسلئے تحقیق کے خاطر اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو وہاں بھیجا انکے ہاتھ پر اٹھارہ ہزار لوگوں نے ( ایک روایت میں 27000 لوگ) بیعت کئے اس کو دیکھ کر حضرت مسلم نے حضرت امام حسین کو آنے کے لئے اجازت (خط لکھ دیا) دی تو آپ کوفہ کے لئے عازمِ سفر ہوئے تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ و حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ ودیگر صحابہ نے آپ کو کوفہ جانے سے منع فرمایا لیکن آپ نے دین حق کی خاطر جان کی قربانی کیلئے بھی ذرا سی لرزش نہ دیکھائی، یزید کے گورنر عبید اللہ بن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیل کیلئے زمین تنگ کر دی اور انہیں بے دردی سے شہید کر دیا۔ یہ خبر امام حسین رضی اللہ عنہ کو ملی یہ ایک اندوہناک خبر تھی آپ کو زبردست صدمہ پہنچا واپسی پر نظر ثانی کیا بھی جا سکتا تھا۔ مگر حضرت مسلم ان کے خویش و اقارب جو وہاں موجود تھے انہیں یہ گوارا نہیں تھا۔ اس لئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی واپسی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے خود ہی اپنے قافلہ کے لوگوں کو یہ اجازت دے دی تھی کہ جسے واپس جانا ہے وہ چلا جائے۔ یہ سن کر صرف دو حضرات چھوڑ کر چلے گئے۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ حربن یزید نے ایک لشکر جرار کے ساتھ آپ کو محصور کر لیا تاکہ والی عراق عبداللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا جائے۔ اسی دوران نماز ظہر کا وقت ہو گیا ۔ آپ نے نماز ادا فرمائی بعد نماز حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ کے ذریعہ حر اور اسکے ساتھیوں (فوج) کے سامنے پوری بات رکھی۔ خطوط اور قاصدوں کا حوالہ دیا۔ حر حیران ضرور ہوا مگر اس نے خطوط کے متعلق لا علمی ظاہر کی اور اس نے آپ کے قافلہ کو روک لیا۔ یہاں بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ دیا جو تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ (ترجمہ) اے لوگو ! رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی بھی ایسے حاکم کو دیکھے کہ ظلم کرتا ہے ۔ خدا کے حدود کو توڑتا ہے۔ سنتِ نبوی کی مخالفت کرتاہے اور سر کشی سے حکومت کرتا ہے اور اسے دیکھنے پر بھی کوئی مخالفت نہیں کرتا ہے اور نہ اسے روکتا ہے تو ایسے آدمی کا اچھا ٹھکانہ نہیں ہے۔ دیکھو ! یہ لوگ شیطان کے پیرو کار ہیں ۔ رحمٰن سے بے سروکار ہیں حدود الٰہی معطل ہے۔ حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرایاجارہا ہے۔ میں ان کی سر کشی کو حق اور عدل سے بدل دینا چاہتا ہوں اور اس کے لئے میں سب سے زیادہ حقدار بھی ہوں۔ اگر تم اپنی بیعت پر قائم رہو تو تمہارے لئے ہدایت ہے ورنہ عہد شکنی عظیم گناہ ہے۔ میں حسین ہوں۔ ابن علی، ابن فاطمہ، اور رسول اللہ ﷺ کا جگر گوشہ مجھے اپنا قائد بناؤ مجھ سے منھ نہ موڑو، میرا راستہ نہ چھوڑو، یہ صراطِ مستقیم کا راستہ ہے اس حقیقت افروز خطبہ کا لوگوں پر کافی اثر ہوا لیکن لالچ اور خوف کی و جہ کر چپ رہے۔ ۹؍ محرم الحرام کی رات کا وقت تھا آپ رات بھر عبادت میں مشغول رہے صبح دس محرم کی تاریخ آگئی دونوں اطراف میں صف آرائی ہو رہی تھی ۔ نماز فجرکے بعد عمرو بن سعد اپنی فوج لے کر نکلا، ادھر امام حسین رضی اللہ عنہ بھی اپنے احباب کے ساتھ تیار تھے۔ آپ کے ساتھ 72 نفوس قدسیہ جس میں بچے بوڑھے خواتین بھی شامل تھیں دوسری جانب 90 ہزار کا لشکر جرار تمام حرب و ہتھیار سے لیس تھے۔ آپ نے جس جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ جس طرف رخ کرتے یزیدی فوج بھیڑیوں کی مانند بھاگ کھڑی ہوتی۔ معاملہ بہت طویل ہوگیا۔ معصوم اورشیر خوار بچے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے لگے، خیمے جلا دیئے گئے، بھوکے پیاسے نواسہ رسول ﷺ میدان کربلا میں صبر کا پہاڑ بن کر جمے رہے، یزیدی دور سے تیر برساتے رہے اور پھر ایک مرحلہ آیا کہ بدبخت شمر ذی الجوشن جب قریب آیا تو آپ پہچان گئے کہ یہی سفید داغ والا وہی بدبخت ہے جس کے بارے میں سرکار دوعالمﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اپنے اہل بیت کے خون سے اس کے منہ کو رنگتا دیکھتا ہوں۔اور وہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی شمرلعین کے لئے بدبختی ہمیشہ کے لئے مقدر بن گئی ادھر امام حسین رضی اللہ عنہ سجدہ میں گئے اورشمر کی تلوار نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی گردن مبارک کو تن سے جدا کر دیا وہ یومِ عاشورہ جمعہ کا دن تھا ماہِ محرم الحرام 61 ھ میں یہ واقعہ پیش آیاآیا اس وقت امام حسین کی عمر 55 سال کے قریب تھی۔
پیغامِ شہادت امام حسینسید الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمیں کئی پیغام دیتی ہے اول یہ کہ ایمان والا اپنے خون کے آخری قطرہ تک حق پر صداقت پر جما رہے باطل کی قوت سے مرعوب نہ ہو۔ دوسری بات یہ کہ امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی جن خرابیوں کے باعث مخالفت کیا ویسے لوگوں سے اپنے آپ کو الگ کرے اور فسق و فجور والا کام نہ کرے اور نہ ویسے لوگوں کا ساتھ دے نیز یہ بھی پیغام ملا کہ ظاہری قوت کے آگے بسا اوقات نیک لوگ ظاہری طور پر مات کھا جاتے ہیں مگر جو حق ہے وہ سچائی ہے وہ کبھی ماند نہیں پڑتی مات نہیں کھاتی اور وہ ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے۔ یہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام کا سرمایہ حیات یزیدیت نہیں بلکہ شبیریت حسینیت ہے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہادت امتِ مسلمہ کے لئے کئی پہلو سے عملی نمونہ ہے، جس پر انسان عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی کو اسلامی طرز پر قائم رکھے اسلامی زندگی اسلامی رنگ و روپ کی بحالی کیلئے صداقت حقانیت جہد مسلسل اور عمل پیہم میں حسینی کردار اور حسینی جذبہ ایثار و قربانی سے سرشار ہو۔ اقتدار کی طاقت جان تو لے سکتی ہے ایمان نہیں۔ اگر ایمانی طاقت کارفرما ہو تو اسکے عزم و استقلال کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ لندن کے مشہور مفکر ’’ لارڈ ہیڈلے ‘‘ کے بقول ’’ اگر حسین میں سچا اسلامی جذبہ کارفرما نہ ہوتا تو اپنی زندگی کے اخری لمحات میں رحم و کرم، صبر و استقلال اور ہمت و جوانمردی ہرگز عمل میں آ ہی نہیں سکتی تھی جو آج صفحہ ہستی پر ثبت ہے۔‘‘
ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ و حقیقت اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے ہمیں جو سبق اورپیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے کیونکہ پنڈت جواہر لا ل نہرو کے بقول ’’ حسین کی قربانی ہر قوم کے لئے مشعلِ راہ و ہدایت ہے ‘‘ اور جیسا کہ مولانا محمد علی جوہر نے شہادت حسین پہ کہا ہے کہ
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اور کسی شاعر نے بہت پیاری بات کہی ہے
نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ وہ ظلم ابن زیاد کا
جو رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا
اور ہندوستان میں اسلام کی روشنی لانے پھیلانے والے صوفی چشتی بزرگ خواجہ اجمیری رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں۔
شاہ است حسینؓ بادشاہ است حسینؓ
دیں است حسینؓ دیں پناہ است حسینؓ
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقّا کہ بنائے لا الٰہ است حسینؓ
اللہ ہم لوگوں کو شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ سے سبق لینے اور حق پر چلنے کی توفیق نخشے۔ آمین ثمہ –
——–
(الحاج حافظ) محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
مسجدِ ھاجرہ رضویہ ، اسلام نگر، کوپالی، مانگو،جمشید پور
Mob: 09308816044