قسط: 9 – فضیلت تعلیم قرآن : – مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 9
فضیلت تعلیم قرآن

مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536
——–
دین میں قرآن فہمی کی اہمیت ۔ آٹھویں قسط کے لیے کلک کریں
——–

یوں تو دین کا کوئی عمل فضیلت سے خالی نہیں ہے لیکن تعلیم قرآن کو بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے، کیوں کہ تمام دینی اعمال کے صحیح ہونے کا انحصار تعلیم قرآن پر موقوف ہے، اگر دینی اعمال قرآن کے عقیدہ و اصول کے مطابق ہوں تو وہ اللہ کی نظر میں قابل قبول ہیں ورنہ مردود ، انسانی فطرت و طبیعت چوں کہ انعام و خوش خبری کی مشتاق واقع ہوئی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے دینی اعمال کی اہمیت کے ساتھ ان کی فضیلت بھی بیان فرمائی تاکہ انسان خوش دلی کے ساتھ دینی اعمال کرسکیں ۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں اُمت مسلمہ میں عوامی سطح پر کچھ دینی اعمال کی فضیلت بیان کرنے ، سننے ، سنانے کا مزاج بناہے، جس کے کچھ اچھے نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں لیکن تعلیم قرآن کی فضیلت کو ابھی بھی نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اس لیے وقت کا اہم تقاضہ ہے کہ دین کے مبلغین ، علماء کرام دینی جماعتیں تعلیم قرآن کی فضیلت بیان کرنے پر خصوصی توجہ دیں تاکہ تعلیم قرآن کے حصول کا ہر خاص وعام کا مزاج بنے، اس عنوان کے تحت چند حدیثیں متن و ترجمہ کے ساتھ پیش کی جارہی ہیں۔ بخاری شریف میں نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث ہے آپﷺ نے ارشاد فرمایا : خَیْرَکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرآنَ وَعَلَّمَہُ یعنی تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہوگی کہ آنحضورﷺ نے قرآن کے سیکھنے اور سکھانے والے کو سب سے بہتر شخص قرار دیا، اب کون اہل ایمان ہوگا جو اپنے آپ کو حضورﷺ کے فرمان کا مستحق نہ بنانا چاہتا ہو؟ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بہتر شخص بننے کے لیے صرف قرآن کا سیکھ لینا کافی نہیں ہے بلکہ دوسروں کو سکھانا بھی ضروری ہے اللہ کے رسولﷺ کی یہ حدیث تمام مسلمانوں سے تقاضہ کرتی ہے کہ وہ اس تعلق سے اپنا انفرادی و اجتماعی جائزہ لیں، خصوصاً وہ جماعتیں اور تنظیمیں جو دین کی تبلیغ کے لیے اٹھی ہیں ، لیکن وقت کا المیہ ہی ہے کہ ان کے تعلیمی و تربیتی و دعوتی منصوبہ میں تعلیم قرآن کوکوئی جگہ نہیں دی گئی ہے، اور دی بھی گئی تو صرف الفاظ قرآن کے سیکھنے سکھانے کی حد تک۔ جبکہ نزول قرآن کا اصل مقصد اس کے احکام و فرامین کو سمجھنا ہے۔ اگرکوئی انفرادی طور پر دین کی تبلیغ و تعلیم کا کام کررہا ہے اور وہ اپنے سامعین کو تعلیم قرآن کا کوئی لائحہ عمل نہیں دیتا ہے بلکہ دین کی دیگر تعلیمات کو جاننے اور عمل کرنے کے متعلق انہیں ان کے حال پر چھوڑتا ہے تو کوئی افسوس کی بات نہیں ہے لیکن جو جماعت چاہتی ہے کہ اس کے کارکنان و متوسّلین تربیتی ایّام میں انفرادی و اجتماعی طور پر مقامی ، ملکی و عالمی سطح پر اسی کے نصب العین و طریقہ کار سے جڑے رہیں ، لیکن اس کے باوجود وہ جماعت اپنے تربیتی و عملی منصوبہ میں تعلیم قرآن و فہم قرآن کو جگہ نہ دے تو بہت افسوس کی بات ہے۔ تعلیم قرآن کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے آپﷺ نے ارشاد فرمایا:عَنْ عَاءِشَۃَؓ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ اَلْمَاہِرُ بِالْقُرآنِ مَعَ السَّفَرَۃِالْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ وَالَّذِیْ یَقْرَاُاْلْقُرآنَ وَیَتَتَعْتَعُ فِیْہِ وَہُوَ عَلَیْہِ شَاقّ’‘ لَہٗ اَجْرَانِ (بخاری مسلم مشکٰوۃ)ترجمہ : ( حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہتی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا قرآن کا ماہر، لکھنے والے نیک بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن اٹک اٹک کر پڑھتا ہے (تلاوت) مشکل ہونے کے سبب تو اس کے لیے دو اجر ہیں۔)
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ قرآن کے ماہر شخص کو قیامت کے دن نہایت بلند مقام سے نوازا جائے گا۔ لیکن قرآن کا ماہر وہی کہلائیگا جس کو الفاظِ قرآن کے ساتھ معانی قرآن سے بھی خصوصی لگاؤ ہو اور قرآن کے مطالب و مراد کو بھی اچھی طرح جانتا ہو ۔ دوسری بات یہ کہ قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھنا کوئی برا فعل نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے دو اجر کی بشارت دی گئی ہے۔ کتنی فضیلت و سہولت ہے ان لوگوں کے لیے جو زبان کے ثقل یا اور کسی وجہ سے قرآن کو روانی سے نہیں پڑھ سکتے بلکہ اٹک اٹک کر پڑھتے ہیں ، ساتھ ہی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسے افراد کو قرآن پڑھنا بند نہیں کرنا چاہیے۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ نے تعلیم قرآن کی فضیلت یوں بیان فرمائی : عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍؓ قَال
قاَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ الرَّبُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰے مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْآنَ عَنْ ذِکْرِیْ وَمَسْءَلتِیْ اَعْطَْیتُہُ اَفْضَلَ مَا اُعْطِیَ السَّآ ءِلِیْنَ وَفَضْلُ کَلَامِ اللّٰہِ عَلٰی سَآءِرِ الْکَلامِ کَفَضْلِ اللّٰہِ عَلٰی خَلْقِہِ. (ترمذی،دارمی،بیہقی،مشکوٰۃ) ترجمہ :۔ (حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس شخص کو قرآن کی مشغولیت کی بنا ء پر میرا ذکر کرنے اور مجھ سے دعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی میں اس کو دعائیں مانگنے والوں سے افضل (اجر ) عطا فرماتا ہوں اور اللہ کے کلام کو تمام کلاموں پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے اللہ کو اپنی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے۔
اس حدیث سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآ ن کی مشغولیت کتنا بڑا اور اہم عمل ہے کہ اس کی بناء پر ان نیک اعمال کا اجر بھی آدمی کو ملتا ہے جو وہ قرآن میں مصروف رہنے کی وجہ سے نہ کر سکا جیسے ذکر اور دعا۔ نیز مذکورہ حدیث قدسی میں شغل قرآن کا ذکر ہے جس میں قرآن کے تمام ہی حقوق و تقاضے شامل ہیں، مثلاً : قرآ ن کا سیکھنا، سکھانا، عمل کرنا ، اس کی تعلیمات کی ترویج و اشاعت ، معاشرہ و ملک میں اس کے قوانین کے نفاذ کی کوشش ۔ ابوداؤد کی ایک روایت سے بھی تعلیم قرآن کی فضیلت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍؓ قَال جَلَسْتُ فِیْ عِصَا بَۃٍ مِّنْ ضُعَفَآءِ الْمُھَا جِرِیْنَ وَاِنَّ بِعْضَہُمْ لَیَسْتَتِرُبِبَعْضٍ مِّنَ الْعُرْیِ وَقَارِیء’‘ یَقْرَأُ عَلَیْنَا اِذجَآءَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فَقَا مَ عِلَیْنَا فَلَمَّا قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ سَکَتَ الْقَارِیُ فَسَلَّم ثُمَّ قَالَ مَاکُنْتُمْ تَصْنَعُوْنَ قُلْنَا کُنَّا نَسْتَمِعْ اِلَیٰ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالےٰ فَقَالَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ مِنْ اُمَّتِیْ مَنْ اُمِرْتُ اَنْ اَصْبِرَ نَفْسِیْ مَعَہُمْ قَالَ فَجَلَسَ وَسْطَنَا لِیَعْدِلَ بِنَفْسِہٖ فِیْنَا ثُمَّ قَالَ بِیَدِہٖ ہَکَذَا فَتَحَلَّقَوْ اوَبَرَزتْ وُجُوْہُہُمْ لَہُ فَقَالَ اَبْشِرُوایَا مَعْشَرَ صَعَالِیْکِ المُہٰجِرِیْنَ بِالنُّورِ التَّآمِ یَوْم الْقِیٰمَۃِ تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ آغْنِیَآءِ النَّاسِ بِنِصفِ یَومٍ وَّذٰلِکَ خَمْسُمِاءۃِ سَنَۃٍ (ابوداؤد مشکٰوۃ)ترجمہ :۔ (حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ ضعیف مہاجرین کے گروہ میں بیٹھا ہوا تھا،
مہاجرین برہنہ ہونے کے سبب ایک دوسرے کو چمٹ کر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک قرآن پڑھنے والا ہم کو قرآن سنارہا تھا، اتنے میں رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے اور کھڑے ہوگئے، پڑھنے والے نے جب آپ ﷺ کو دیکھا تو خاموش ہوگیا، آپﷺ نے ہم کو سلام کیا اور فرمایا تم کیا کررہے تھے؟ ہم نے عرض کیا ہم سب قرآن سن رہے تھے۔ آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا : تمام تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگ پیدا فرمائے جن کے پاس خود مجھے بیٹھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ راوی کہتے ہیں اس کے بعد رسول اللہﷺ انصاف کی برقراری کی خاطر ہمارے درمیان بیٹھے اور اپنے ہاتھ کے اشارہ سے ہمیں حلقہ بناکر بیٹھنے کو کہا، تمام حاضرین نے اپنے چہرے رسولﷺ کی طرف کردیے ، پھر آپﷺ نے فرمایا: اے مہاجرین کے ضعیف گروہ خوش ہوجاؤ تمہیں قیامت کے دن پورا نور ملے گا اور یہ کہ تم مالداروں سے آدھا دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے، اور آدھا دن پانچ سو برس کا ہوگا) ا س حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیم قرآن کا ایک ذریعہ قرآن کو سننا ہے۔

Share
Share
Share