مجاہد آزادی اور آفتاب فقہ مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحیؒ : – مفتی امانت علی قاسمیؔ

Share
مفتی امانت علی قاسمی

مجاہد آزادی’آفتاب فقہ اور سابق مفتی دارالعلوم دیوبند
مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحیؒ

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
07207326738 Mob:

جب سے دنیا قائم ہے آنے جانے کا مستحکم سلسلہ قائم ہے،ہر آنے والا شخص اپنے ساتھ خوشی و شادمانی کی سوغات لے کرآتا ہے ، اور جانے والا اپنے پیچھے درد کی داستان ، غموں کا طوفان اور مصیبت و پریشانی کا سامان چھوڑ جاتا ہے ،جانے والا تو خاموشی سے اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے، لیکن ۱پنے پیچھے پسماندگان کو غموں سے نڈھال کر دیتا ہے کچھ یہی حال دارالعلوم دیوبند کے مفتی ، مجاہد آزادی ، آفتاب فقہ حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی کا ہے ۔

مفتی ظفیر الدین صاحب اپنی زندگی کاطویل سفر طے کر کے آسودۂ خواب ہوگئے ،لیکن اپنے پیچھے سینکڑوں ،بلکہ ہزاروں شاگردوں کو غم کا سیلاب دے گئے ، جو لوگ بھی دارالعلوم دیوبند سے کسی طرح وابستہ ہیں وہ مفتی صاحب کی شخصیت سے اچھی طرح واقف ہوں گے ان کی زندگی میں کئی ایسی خوبیاں تھیں جن کودیکھ کر بر جستہ کہا جا سکتا ہے کہ مفتی صاحب اسلاف کے یاد گار تھے ، ان کی زندگی میں تواضع ، و کسر نفسی ، عاجزی و فروتنی ، بے کیفی و بے تکلفی ، نرمی و گدازی اور سادگی و خوش اخلاقی نمایاں طور پر دکھائی دیتی تھی آپ سادگی کے پیکر مجسم تھے آپ کا حال و قال اور گفتار و کردار دونوں قلندرانہ تھا قوت حاسہ کی ان کے فراوانی تھی نظر میں وسعت اور فکر میں اعتدال پایا جاتا تھانماز کے حد درجہ پابند تھے بیماری ہو کہ تندرستی ہر حال میں ،بڑھاپا اور ضعف و نقاہت کے با وجود ہمیشہ مسجد قدیم کے بالائی منزل پرجماعت سے نماز پڑھتے تھے آپ کا قلبی و اصلاحی تعلق حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب سے تھا حضرت قاری صاحب نے آپ کو دارالعلوم بلایا تھامفتی صاحب قاری طیب صاحب کے بتائے ہوئے معمولات پورے کیا کرتے تھے قاری صاحب سے آپ کو اجازت و خلافت بھی حاصل تھی قاری صاحب کے ساتھ اس ربط و تعلق اور انسیت و محبت کی قیمت بھی مفتی صاحب کو چکانی پڑی تھی انقلاب دارالعلزم کے زمانہ میں مفتی صاحب کا خود بیان ہے کہ میں گھر گیا ہوا تھا انقلابی بچے میرے کمرے کا تالا ٹوڑ کر ایک ایک سامان لوٹ لے گئے جس میں کئی کتابوں کا مسودہ بھی ضائع ہوگیا مفتی صاحب نے اپنی تفصیلی سوانح حیات مرتب کی کی تھی جو انقلاب کی نذر ہوگئی بعد میں شاگردوں کے اصرار پر مفتی صاحب نے ’’زندگی کا علمی سفر ‘‘تحریر فرمایا انقلا ب میں ہوئے نقصان کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ مفتی صاحب نے فرمایا کہ میرے پاس صرف ایک شروانی تھی انقلابی بچے وہ بھی لے گئے میرے پاس دوسری شروانی بنانے کے لئے پیسے نہیں تھے اتفاق سے دہلی جانا ہوا میں بغیر شروانی کے ہی دہلی چلا گیا وہاں مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کو پتہ چلا تو انہوں نے شروانی بنانے کے لئے پیسے عنایت فرمائے ۔
مفتی صاحب دارالعلوم میں پچاس سال سے زائد عرصہ گزار کر کن فی الدنیا کانک غریب او عابری سبیل کا بہترین سبق دے گئے ، دارالعلوم میں انہوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ گزارا ، بلکہ کہئے کہ پوری زندگی گزاردی ،لیکن ان کے کمرے کو دیکھ کر محسوس نہیں ہوتا تھا کہ اس پیر مغاں کی پوری زندگی اسی کنج قفس میں فنا ہوئی ہے ، ان کے کمرے میں کتابوں کے علاوہ ٹوٹی چارپائی اور اس پر لگی مچھر دانی کے علاوہ شاید دیکھنے والوں کو کچھ نظر نہ آتا، گویا وہ اپنی زبان حال سے کہ رہے تھے ۔
نکہت گل میری دہلیز پہ کیا ٹھہرے گی
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
مفتی ظفیر الدین صاحب اخلاق و اطوار کے حوالے سے نمونۂ اسلاف تھے ، طبیعت میں سادگی و بے تکلفی تھی ، انتہائی خوش اخلاق و ملنسار تھے ، جو بھی ان سے ذرا قریب ہوتا ،قریب ہونے لگتا ، ایسا محسوس ہوتا کہ مفتی صاحب میں ایک مقناطیسیت تھی جواپنی طرف انسان کو کھینچ لیتی ، افتاء کے سال میری تمرین مفتی صاحب کے پاس نہیں تھی صرف درمختار کا درس ان سے متعلق تھا لیکن جب بھی میں اپنی تمرین کر کے دارالافتاء سے باہر آتاتو مفتی صاحب باہر چارپائی پر تشریف فرما ہوتے اور اس طرح خندہ پیشانی ،محبت و مسکراہٹ سے ملتے جیسے کہ ملاقات کے انتظار میں ہی تشریف فرماہوں ،اور اپنے ضروری مشاغل کو بالائے طاق ر کھ کر گفتگو میں مشغول ہوجاتے تھے ہم لوگ آپ کب عمررفتہ کب کہانی بڑے ذوق و شوق سے سنتے بعض ساتھی اشعار سناتے اور مفتی صاحب لطف لے طر سنتے بعض مرتبہ داد بھی دیتے ،مفتی صاحب کی یہ سادگی و بے تکلفی ان کے رہن و سہن ، ررفتار و گفتار اور سفر و حضر ہر جگہ دکھائی دیتی تھی ۔
تصنیف و تالیف کے اعتبار سے مفتی صاحب کی خدمات کا دائرہ کار بہت وسیع ہے ، مفتی صاحب کا شمار سہل نگار ، کثیر التصانیف ، عالم با کمال میں تھا انہوں نے دو درجن سے زائد علمی و تحقیقی کتابوں کے ذریعہ علمی شہ پاروں میں نمایاں اضافہ کیا ہے انداز تحریر شستہ ، بلکہ برجستہ اور زبان انتہائی سہل اور رواں تھی ان سب پرمستزاد یہ کہ انہوں نے انہی موضوعات پر قلم اٹھایاتھا جن پر ابھی خاطر خواہ اور قابل قدرکام نہیں ہو سکا تھا ،اسلام کا نظام امن ، اسلام کا نظام مساجد ، نظام عفت و عصمت ، نظام تعلیم و تربیت ، نظام سیرت ،اسلامی حکومت کے نقش و نگار ، دینی جد و جہد کا روشن باب ، اسلامی نظام معیشت وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں ۔
مفتی صاحب کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ فتاوی دارالعلوم کی ترتیب ہے ، دارالعلوم میں ایک طویل زمانہ سے فتاوی نویسی کا سلسلہ جاری ہے جس کی تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں میں پہونچ چکی ہے ، صرف دارالعلوم کے مفتی اول حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی کے فتاوی کی تعداد چالیس ہزار سے متجاوز ہیں ، مفتی صاحب نے مفتی عزیزالرحمن صاحب کے فتاوی کی ترتیب کا عظیم الشان کام انجام دیا ہے اور بہت کم مدت میں تحقیق و تخریج کے ساتھ اس کو ابواب فقہیہ کی ترتیب پر مرتب کیا ہے اور یہ اس وقت انجام دیا گیا ہے جب کے اردو فتاوی کو شائع کرنے کا ابھی رواج نہیں ہوا تھا اس اعتبار سے یہ کام بڑی اہمیت کا حامل ہے مفتی صاحب کا یہ کام لائق قدر اور قابل فخر ہے مفتی صاحب نے ایک مرتبہ خود راقم سے فرمایا تھا کہ یہ فتاوی اس زمانے میں مرتب کئے گئے ہیں جس زمانہ میں اردو کے دوسرے فتاوی اس طرح محقق ومخرج ابواب و فصل کی ترتیب پر شائع نہیں ہوئے تھے ۔
مفتی صاحب کا دوسرااہم کارنامہ کتب خانہ دارالعلوم کی ترتیب ہے ترتیب جدید سے قبل کتب خانہ کی حالت یہ تھی کہ کوئی کتاب تلاش کرنے پر دو تین دن لگ جاتے تھے اس لئے ارباب شوری نے نئی ترتیب کے لئے مفتی صاحب کو مامور کیا ، مفتی صاحب نے بہت کم مدت میں کتب خانہ دارالعلوم کو اس عمدہ طریقہ سے ترتیب دیا کہ آج کوئی بھی کتاب تلاش کرنے پر دشواری نہیں ہوتی ہے دارالعلوم کی لائبریری کی حسن ترتیب کو دیکھ کر مولانا علی میاں ندویؒ نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کی لائبریری کی ترتیب و تزئین کے لئے آپ کو مدعو کیا مولانا علی میاں صاحب سے آپ کے اچھے مراسم تھے ،بلکہ آپ تو اکثر اکابرکے منظور نظر تھے ، چنانچہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کا موجودہ کتب خانہ بھی مفتی صاحب کی جسن ترتیب کا شاہکار ہے ۔
مفتی صاحب کا اہم علمی کارنامہ یہ بھی ہے کہ ارباب ارباب شوری نے آپ کو’’ ماہنامہ دارالعلوم ‘‘کے اداریہ لکھنے پر مامور کیا تھا ، مفتی صاحب نے ۱۳۸۵ھ ؁سے ۱۴۰۲ھ ؁تک مسلسل سترہ سال ماہنامہ دارالعلوم کا اداریہ لکھا یہ اداریہ زبان و بیان اور تحقیق و تجزیہ کے اعتبار سے پورے ملک میں شوق سے پڑھے جاتے تھے ، فقہ اکیڈمی کے صدر ہونے کی حیثیت سے آپ نے عصر حاضر سے ہم آہنگ سینکڑوں تحقیقی مقالات لکھے ،۱۹۹۳ء ؁سے ۲۰۰۸ء ؁تک دارالعلوم میں آپ مفتی کے منصب پر فائز رہے اور اس مدت میں آپ نے ہزاروں استفتاء ات کے جوابات لکھے خاص طور پر جدید مسائل میں آپ کا سیال قلم اعتدال کی حد سے آگے نہیں بڑھتا تھا ، جب مسلم پرسنلاء کی جانب سے عائلی مسائل کی دفعہ وار تدوین کا تقاضہ آیا تو اس کے لئے حضرت مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کی سرکردگی میں جو کمیٹی تشکیل دی گئی اس میں آپ بھی شامل تھے اور اس مشکل ترین کام کا ابتدائی نقش آپ نے ہی تیار کیا تھا ، مفتی صاحب کی تحریری زندگی کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عصر حاضر کے بہترین ادیب اور ماہر انشاء پر داز ہونے کے سا تھ ساتھ فقہ و فتاوی کے عظیم شناور، اپنے عہد کے فقیہ النفس اور فقیہ بے مثال تھے ان کی فکر میں اعتدال کے ساتھ بلند پروازی تھی ، تشدد کی جگہ نرمی و نرم خوئی کے قائل و علمبردار تھے ۔
مفتی صاحب کی دیرینہ خواہش جس کا مفتی صاحب بار بار تذکرہ کرتے تھے ،بلکہ اپنی بے مائیگی اور بے بسی کا اظہار بھی کرتے تھے کہ ان کے فتاوی کو مرتب کر دیا جائے جن کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ان کی دوسری دیرینہ تمنا تھی کہ ان کے اداریے اور مقالات جن کی تعداد سو سے متجاوزہے ان کو شائع کر دیا جائے ،لیکن قضاء و قدر کو یہ منظور نہ تھا اس لئے مفتی صاحب کی یہ دیرینہ تمنا اور ان کی یہ آخری آرزوان کی زندگی میں تکمیل کو نہیں پہونچ سکی،خدا کرے ایسے اسباب و حالات پیدا ہوں کہ مفتی صاحب کی یہ دونوں تمنا ئیں پوری ہوں اور ان کی روح کی تسکین کا باعث بنے ۔
مفتی صاحب تحریر و کتابت کے ساتھ ساتھ فن خطابت کے بھی گوہر شناس تھے آپ کے اندر زمانہ طالب علمی سے ہی تقریر و خطابت میں ملکہ پیدا ہو گیا تھا جنگ آزادی میں بھی آپ نے اپنی خطابت کی خوب جولانی دکھائی تھی ، دارالعلوم دیوبند میں طلبہ بہار کی مشترکہ لائبریری بزم سجاد کے آپ سرپرست تھے ، اور اس کے سالانہ پروگراموں میں شرکت کرتے تھے اس کے علاوہ آپ ملی و سماجی تنظیموں سے بھی وابستہ تھے ، فقہ اکیڈمی انڈیا کے صدر تھے ،مسلم پرسنل لا کے رکن اساسی تھے ، امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے بھی رکن تھے اس کے علاوہ مختلف علمی و سماجی اداروں کے سر پر ست اور ذمہ دار تھے ۔
مفتی صاحب کی زندگی کا ایک اہم باب اور معاصر علماء پر امتیاز و تفوق کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مفتی صاحب کو جنگ آزادی میں خدمت کا موقع ملا تھا خود راقم نے مفتی صاحب سے اس متعلق استفسار کیا تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ ،۱۹۴۲ء ؁کے بھارت چھوڑو تحریک میں ضلع مؤ میں اپنی طالب علمی کے زمانہ میں قائدانہ رول ادا کیا تھا ،جب بڑے بڑے علماء و قائدین سلاخوں کے پیچھے ڈال دئے گئے تو لوگوں نے مجھے تقریر کے میدان میں اتار دیا ، میں نے قائدانہ انداز میں خوب تقریریں کی ، خوب لوگوں کو گرمایا اور لوگوں میں شوق جہاد اور جذبہ آزادی کی آگ لگا دی ، ہر جلسے اور ہر مظاہرے میں میری تقریریں ہوتی تھیں نتیجۃ انگریزی حکومت نے میری گرفتاری کا وارنٹ جاری کردیا ، گیارہ دنوں تک میں روپوش رہا اس عرصے میں مجھے کافی مصیبتیں جھیلنی پڑیں، تین دن فاقہ بھی کرنا پڑا اور جب روپوش رہنا بھی ممکن نظر نہیں آیا تو گرفتاری سے بچنے کے لئے کچھ بزرگوں کے مشورے سے میں نے مؤ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ، اس وقت پورے ملک میں آزادی کے متوالوں نے ریل کی پٹریاں اکھاڑ دی تھیں ، ٹرین کی آمد و رفت بالکل بند تھی ، ایسی حالت میں گیارہ دن پیدل سفر کرکے وطن پہونچا،مفتی صاحب نے اس کی پوری تفصیل اپنے رسالہ ’’جنگ آزادی کا یاد گار سفر ‘‘میں درج کی ہے جنگ آزادی میں اپنی جان جوکھم میں ڈالنے والے اس عظیم مجاہد کی استغنائیت اور وطن پرستی دیکھئے کہ بحیثیت مجاہد آزادی آپ نے حکومت سے پنشن لینا گوارہ نہیں کیا ۔
مفتی صاحب جن خوبی و کمالات سے متصف تھے اور اپنی زندگی میں جو علمی و دینی کارہائے نمایا ں انجام دئے ہیں اس مختصر مضمون میں نہ اس کا احاطہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی تمام گوشوں پر خامہ فرسائی مقصود ہے بس اتنا کہ دینا کافی ہے کہ مفتی صاحب نے ۱۹۴۵ء ؁سے اپنی خدمات کا آغاز کیا ، پوری زندگی کتابیں تصنیف کیں فتاوی لکھے ، درس و تدریس کے فرائض انجام دئے ، مقالات و مضامین اور اداریے لکھے اور وعظ و نصیحت اور تقریر و خطابت کے ذریعہ لوگوں کو سنت و شریعت سے واقف کرایا ، یہی خدمات دینیہ ان کی زندگی کا مشغلہ تھا اس کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا مشغلہ نہیں تھا ، تقریبا ۷۰ سال تک خدمت دین کا فریضہ انجام دے کر بالآخر فقہ و فتاوی کا یہ آفتاب،سادگی کا پیکر ، اخلاص و تقوی کا بلند مینار ، اپنی تمام تر تابانی کے ساتھ ۳۱مارچ ۲۰۱۱ء ؁مطابق ۲۵ربیع الآخر ۱۴۳۲ء ؁بروز جمعرات غروب آفتاب سے قبل غروب ہو گیا ، اللہ تعالی مفتی صاحب کے خدمات قبول فرمائے اور جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور مفتی صاحب کے چھوڑے ہوئے نقوش کو زندہ اورباقی رکھے
مرنے والے کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں

Share
Share
Share