ابنِ صفی :احوال وآثار
محمد عظمت الحق
اودگیرضلع لاتور(مہاراشٹرا)
ابنِ صفی اردو میں سرّی ادب کے بے تاج بادشاہ گزرے ہیں ۔ا ن کا تخلیق کردہ جاسوی ادب نہ صرف تفریحِ طبع کا ذریعہ ہوتا تھا بلکہ انھوں نے اپنے جاسوسی ناولوں کے ذریعے عوام میں قانون کے احترام کا شعور بھی بیدار کیا ۔ان کے ناو ل جاسوسی ہونے کے باجوداپنے اندر زبردست ادبی حسن اور چاشنی رکھتے ہیں۔ ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بازار میں آنے سے قبل ان کی پیشگی بکنگ ہو جاتی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ کئی غیر اردو داں خواتین وحضرات نے محض ان کے ناول پڑھنے اور ان سے لطف اٹھانے کی خاطر اردو زبان سیکھی۔زیرِ نظر مختصر سے مضمون میں ابنِ صفی کے حالاتِ زندگی اور ان کے ناولوں کو زمانی ترتیب کے ساتھ قلمبند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ابنِ صفی اپریل ۱۹۲۸ء کو ریاستِ اتر پردیش کے ضلع الہ آباد کے قصبے’ نارہ ‘میں پیدا ہوے۔یہ کائستھ نژاد مسلم تھے۔ان کے والد کا نام صفی اللہ اور والدہ کا نام نصیرہ بی بی ہے۔ابنِ صفی کا پیدائشی نام اسرار احمد ہے۔ان کی ابتدائی تعلیم ڈی۔اے ۔وی اسکول الہٰ باد میں ہوئی۔پھر ایوننگ کرسچن کالج میں داخلہ لیا ۔محتصر مدت کے لیے الہٰ آباد یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کی۔پھر آگرہ یونیورسٹی سے بی۔ اے کی تکمیل کی۔
ابنِ صفی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز درس وتدریس کے پیشے سے کیا۔مجیدیہ اسلامیہ کالج الہ آباد اور یادگارِ حسینی ہائر سیکنڈری اسکول، الہٰ آباد میں تقریباً تین سال تدریسی خدمات انجام دیں۔ابنِ صفی نے تین شادیاں کیں۔ان کی پہلی بیوی کانام فرحت جہاں تھا۔ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔انھیں ٹی بی کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔ابنِ صفی کا دوسرا نکاح سلطان پور(اترپردیش)کے ڈپٹی سپرٹینڈینٹ آف پولس کی دختر امِّ سلمیٰ خاتون سے ۱۹۵۳ ء میں ہوا۔ان کا تیسرا نکاح ایک مطلقہ خاتون فرحت آرا سے ۱۹۶۹ ء میں ہوا۔فرحت آرا اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔انھوں نے اردو ادب میں ایم۔ اے کیا تھا۔ادب کا اچھا ذوق تھا ۔’’آنچل اور طوفان‘‘ کے نام سے ایک ناول بھی ان کی یاد گار ہے۔ در اصل یہ ابنِ صفی کی سیکریٹری کے فرائض انجام دیتی تھیں۔فرحت آرا سے بھی انھیں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ابنِ صفی کی دوسری اہلیہ امِّ سلمیٰ خاتون سے انھیں چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔
عباس حسینی،جمال رضوی ،(شکیل جمالی)مشہور مصور سرور حسین عابدی،پروفیسر مجاور حسین رضوی( جنھوں نے ابنِ سعید کے نام سے جاسوسی ناول لکھے) ڈاکٹر راہی معصوم رضا،اشتیاق حیدر،یوسف نقوی ،حمید قمر،قمر جائسی،نازش پرتاب گڑھی،تیغ الہٰ آبادی وغیرہ ابنِ صفی کے الہٰ آباد کے دیرینہ دوست واحباب تھے۔
’’ناکام آرزو‘‘ابنِ صفی کی پہلی قلمی کاوش ہے۔یہ کہانی انھوں نے اس وقت لکھی جب کہ وہ ساتویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھے۔یہ کہانی مشہور ناول نگاراور صٖحافی عادل رشیدکے زیرِ ادرت بمبئی سے شائع ہونے والے ہفت روزہ’’شاہد‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔عادل رشید نے ابنِ صفی کو معمر افسانہ نگار سمجھتے ہوے ان کے نام کے ساتھ’’مصورِ جذبات حضرت اسرار ناروی‘‘ لکھا تھا۔
ابنِ صفی نے شروع میں اسرارؔ ناروی کے نام سے کہانیاں لکھیں۔اس نام سے شاعری بھی کی۔پھر طغرل فرغان کے قلمی نام سے طنزیہ ومزاحیہ مضامین لکھے۔اس کے بعد ابنِ صفی کے نام سے جاسوسی ناول نگاری کاآغاز کیا ۔ جب وہ آٹھویں جماعت کے طالبِ علم تھے اس وقت انھوں نے ’’آخری التجا‘‘ کے عنوان سے ایک پُر در دو پُرتاثیر نظم لکھی۔صفیہ صدیقی کا بیان ہے کہ جب انھوں نے یہ نظم مشاعرے میں پڑھی تو ایک تہلکہ سا مچ گیا۔یہی نظم ہے جس کے ذریعے ابنِ صفی دنیائے ادب سے روشناس ہوے۔ایک اندازے کے مطابق یہ بات ۱۹۴۲ء کی ہے۔
ابنِ صفی نے پہلا انشائیہ یا افسانہ’’فرار‘‘ کے عنوان سے لکھا۔یہ تخلیق ماہنامہ ’’نکہت‘‘ الہٰ آباد کے جون ۱۹۴۸ ء کے شمارے میں شائع ہوئی۔ ابنِ صفی کا پہلا جاسوسی ناول’’دلیر مجرم‘‘ہے جو مارچ ۱۹۵۲ ء میں الہٰ آباد سے شائع ہوا۔فریدی حمیدسیریز کا پہلا ناول بھی یہی ہے۔عمران سیریز کا پہلا ناول ’’خوف ناک عمارت‘‘ ہے جو اگست ۱۹۵۵ ء میں پاکستان سے شائع ہوا۔
ابنِ صفی نے اپنے زرخیز قلم سے جملہ ۲۴۹ جاسوی ناول لکھے۔ان میں فریدی۔ حمید سیریز کے۱۲۱ اور عمران سیریز کے ۱۲۲ناول ہیں۔جبکہ انور۔رشید سیریز کے چھے ناول ہیں ۔ان ناولوں کے علاوہ دس اور تصانیف ا ن کی یاد گار ہیں جن میں معاشرتی ،رومانی،نفسیاتی،طنزیہ ناولیں، کہانیوں کے مجموعے اور ایک شعری مجموعہ’’متاعِ قلب ونظر‘‘شامل ہے۔شعری مجموعہ زیورِ طباعت سے آراستہ نہیں ہوا۔سنا ہے کہ ابنِ صفی کے صاحب زادے احمد صفی کی نگرانی میں عنقریب شائع ہونے والا ہے۔ان کتابوں کے علاوہ تقریباً ایک سو سے زائد طنزیہ ومزاحیہ مضامین ، انشائیے اور کہانیاں بھی ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں ۔۱۹۶۰ء تا ۱۹۶۳ء ابنِ صفی شدید علالت کا شکار رہے۔اس دوران انھوں نے کچھ نہیں لکھا۔۱۹۶۳ ء میں جب وہ شفا یاب ہوے تو ’’عابد اور دیڑھ متوالے‘‘ جیسے معرکتہ الآراناول کے ساتھ دوبارہ میدان میں آئے اور اپنی وفات(۱۹۸۰ء) تک برابر لکھتے رہے۔۱۹۷۰ ء کے دہے میں کراچی یونیورسٹی(پاکستان) میں ان پرایک ادبی مقدمہ بھی دائر کیا گیاتھا۔ابنِ صفی کے ایک ناول ’’بے باکوں کی تلاش‘‘ کی کہانی پر ایک فلم ’’دھماکہ‘‘کے نام سے بنائی گئی ۔اس فلم کے مکالمے ، گیت اور منظر بھی ابنِ صفی ہی نے لکھے۔
۲۶ جولائی ۱۹۸۰ء کوجاسوسی ادب کا یہ معمار،صاحبِ طرز ادیب اور شاعر اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملا ۔پاپوش نگر قبرستان ( کراچی )میں تدفین عمل میں آئی۔
(ماخوذو مستفاد’’ابنِ صفی :ایک نظر میں ‘‘ مرتب: محمد عارف اقبال مشمولۂ ابنِ صفی :مشن اور ادبی کارنامے،اردو بک ریویودہلی۲۰۱۳ص۲۸ تا ۴۴)
Mohammad Azmat ul Haq
C.H.B.Lecturer & Reseach Scholar,
Dept. of Urdu,M.U. College
Udgir-413517,Dist,Latur(M.S)