افسانہ
جگنووں کے تعاقب میں
فوزیہ حبیب
اسسٹنٹ پروفیسر’ شعبہ اردو
اسلامیہ ویمنس کالج وانمباڑی
ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا مشاعرہ کا بھی انتظام تھا لیکن اس وقت زیادہ ہجوم کالج اسٹوڈنٹس کی وجہ سے تھا- غزل سنگنگ کا مقابلہ ہورہا تھا اور اسٹوڈنٹس اس میں حصہ لے رہے تھے- طوبیٰ بھی اپنی ساتھیوں کے ہمراہ اپنی مخصوص نشست پرجو اسٹوڈنٹس کے لئے مختص کی گئی تھیں نروس سی بیٹھی ہوئی تھی گو کہ اس کی آواز بہت زیادہ سریلی نہیں تھی مگر جب وہ گاتی تو ایک سماں سا بندھ جاتا ۔
سننے والا اس کی آوازکے سحر میں کھوجاتا مگر آج اتنے لوگوں میں وہ خود کو پر اعتماد محسوس نہیں کرپا رہی تھی- اس سے پہلےبھی وہ کالج میں ہونے والے مختلف فنکشنز میں اپنی آواز کا جادو جگا چکی تھی- چاہے وہ نعتیہ مقابلہ ہو یا غزل کا پہلے انعام کی حقدار وہ ہی ٹھہرتی مگر آج وہ خاصی نروس سی تھی جج کے طور پر شہر کے بڑے بزنس مین اور عہدیدار کے علاوہ مشہور میوزک ڈائریکٹر گوتم کپور کا نام بھی نمایاں تھا- طوبیٰ کے کالج سےاس کے علاوہ اور چار لڑکیوں نے شرکت کی تھی گو کہ ان سب کا ڈپارٹمنٹ الگ تھا اس کے باوجود طوبیٰ کوان سب کا وجود اس وقت غنیمت لگ رہا تھا ۔” کیوں پریشان ہورہی ہواس سے پہلے بھی تم کتنے مقابلوں میں حصہ لے چکی ہو ” مائرہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ” پریشان تو نہیں ہوں مگر مجھے تھوڑی سی گھبراہٹ ضرور ہورہی ہےشاید بھیڑ کی وجہ سے ہو ” طوبیٰ نے ٹشو سے چہرہ پونچھتے ہوئے کہا ” ہاں رش تو بہت زیادہ ہی ہےمیں تو یا بہت نروس ہوں پتہ نہیں مجھ سے پرفارمنس ہو بھی پائیگا یا نہیں ” عروہ کی حالت بھی دیدنی تھی تبھی شور اٹھا چیف گیسٹ تشریف لاچکے ہیں اور اب پروگرام شروع ہونے میں کچھ ہی وقت باقی تھا وہ سب باتیں ادھوری چھوڑ کر پریکٹس میں لگ گئیں پروگرام شروع ہوا قرات، حمد اور نعتیہ کلام کے بعد غزل کا باقاعدہ آغاز ہوا پہلے دو مختلف کالج کی طالبات نے غزلیں سنائیں اس کے بعد ان کے کالج کی باری آئی عروہ کے بعد اس کا نمبر تھا وہ اچھی خاصی پر اعتماد لڑکی تھی مگر اس وقت بیحد نروس ہورہی تھی اینکر (anchor) نے مائیک پراس کو دعوت دی تو وہ اپنا اعتماد بحال کرتے ہوئے اسٹیج پر پہنچی مائیک ہاتھ میں لیتے ہوئے اس نے ایک دو لمحہ کا وقفہ کیا اور پھر احمد فراز کی غزل جو اس کی پسندیدہ غزلوں میں سے ایک تھی ترنم کے ساتھ پڑھنا شروع کیا
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ ترنم اور لے سے طوبیٰ کی آواز کی دلکشی اور بڑھ گئی تھی اسے سر کا بھی تھوڑا بہت علم تھا بے شک اس نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر اسکول کے زمانے سے وہ ایسی ایکٹیویٹیز (activities ) میں حصہ لیتی آئی تھی وہ نعت خوانی بھی بہت اچھی کرتی تھی اسکول اور کالج میں ہونے والے مذہبی پروگرام میں بھی بڑے شوق سے حصہ لیتی تھی مگر زیادہ انٹرسٹ گائیکی میں تھا۔
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لئے آ
مہدی حسن کی گائی ہوئی غزل کے ساتھ طوبیٰ نے بھر پور انصاف کیا تلفظ ، ادائیگی اور سر کا وہ بھر پور دھیان رکھ رہی تھی
کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ
تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لئے آ
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لئے آ طوبیٰ کو لگا اس کی نروس نیس کہیں غائب ہوگئی ہے اب وہ پوری طرح ڈوب کر گارہی تھی اسے پتہ تھا کہ کسی بھی کلام میں جان ڈالنے کے لئے فیلنگ ضروری ہے اس نے جب پورے جذبات کے ساتھ یہ شعر پڑھا تو ہال تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا
مانا کہ محبت کا چھپانا بھی ہے محبت
چپکے سے کسی روز جتانے کے لئے آ
جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی کسی روز نہ جانے کے لئے آ
ایک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم
اے راحت جان مجھ کو رلانے کے لئے آ اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لئے آ
جب وہ غزل ختم کرکے اسٹیج سے نیچے اتری تو اسے بھر پور پذیرائی ملی طوبیٰ کے علاوہ دوسرے کالج سے آنے والی ایک اور لڑکی ماہین کی پرفارمنس بھی بہت اچھی تھی مگر فرسٹ پرائز طوبیٰ کو ہی ملا جب وہ میوزک ڈائریکٹر گوتم کپور سے شیلڈ لے رہی تھی تو انہوں نے خصوصی طور پر اس کی آواز کی تعریف کی اور پروگرام کے اختتام میں اسے ملنے کو کہا اس کی خوشی دیدنی تھی فیکلٹی کے ساتھ وہ میزبان کالج کے گیسٹ روم میں پہنچی جہاں گوتم کپور اور دوسرے مہمانوں کو ٹھہرایا گیا تھا دس منٹ کے بعد اسے بلایا گیا جب وہ اندر داخل ہوئی تو گوتم کپور کے علاوہ دو اور بھی لوگ تھے جو پروگرام میں تو نہیں تھے مگر ان کی بات چیت اور حلیہ سے اس نے اندازہ لگایا کہ وہ میوزک سے تعلق رکھتے ہیں گوتم کپور نے طوبیٰ کا تعارف ان دونوں سے کروایا ان میں سے ایک پاپ سنگر تھا اور دوسرا گٹار بجاتا تھا ” کچھ سنائیں یہ دونوں آپکی آواز سننا چاہتے ہیں ” اسے اسٹیج میں اتنا نروس فیل نہیں ہواجتنا اب ہو رہا تھا
بہرحال تھوڑی دیر بعد اس نے وہی غزل کے پہلے کے دو اشعار سنائے ان لوگوں کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر لگ رہا تھا کہ اس کی آواز پسند آگئی ہے ” ٹھیک ہے مس طوبیٰ اب آپ جاسکتی ہیں دھنیواد ” گوتم کپور کے کہنے پر اس نے باہر کی راہ لی ” میم مسٹر کپور نے مجھے ان لوگوں سے کیوں ملوایا ” اس نے اپنی فیکلٹی میڈم شاہانہ سے پوچھا ” مجھے لگتا ہے کہ تمہاری آواز اور گائیکی انہیں پسند آگئی ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تمہیں ایک موقع دیدیں ” "کیا مطلب میں سمجھی نہیں میم ” ہوسکتا ہے کہ وہ تم سے کوئی گانا گوائیں کسی فلم کے لئے یا کسی سیریل کا کوئی ٹائٹل سانگ ” سچ میں میم کیا ایسا ہوسکتا ہے ” طوبیٰ کو یقین نہیں آرہا تھا ” مے بی ” میڈم شاہانہ نے کندھے اچکائے ” اگر ایسا کچھ ہوا تو کیا تمہارے گھر والے اس کی اجازت دیدیں گے ” طوبیٰ کا سنہرا خواب ایک جھٹکے سے ٹوٹ گیا وہ کچھ دیر خالی نظروں سے انہیں تکتی رہی "کیا ہوا طوبیٰ ” ” کچھ نہیں میم میں سوچ رہی تھی کہ اگر ایسا ہوا تو میرے گھر والے کبھی نہیں مانیں گے ” "پھر ” تب کی تب دیکھا جائیگا چلیں میم ” اور اس کا باقی کا سفر اسی اڈھیر بن میں گزرا . اس واقعے کو گزرے پورے دو مہینے اور بارہ دن ہو چکے تھے وہ میتھس کی اسٹوڈنٹ تھی اس دن اس کا پریکٹیکل تھا جب پرنسپل نے اسے بلوا کر بھیجا وہ اندر آئی تو وہ فون پر کسی سے بات کر رہے تھے اشارے سے اسے رکنے کو کہا فارغ ہونے کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوئے ” کیسی جارہی ہے اسٹڈیز ” انہوں نے پوچھا ” جی سر اچھی جارہی ہے "کیا یہی پوچھنے کے لئے بلایا ہے وہ دل میں سوچ رہی تھی” طوبیٰ میوزک ڈائریکٹر گوتم کپور کا فون آیا تھا وہ تمہیں اپنی ایک آنے والی فلم میں گانا گوانا چاہتے ہیں ” اچانک خوشی برداشت کرنا بھی کتنا مشکل ہوتا ہےیہ آج اسے پتہ چلا ” پھر کیا کہنا ہے ” سر نے پوچھا ” سر میں کچھ نہیں کہ سکتی پہلے مجھے اپنے والدین سے اجازت لینی ہے ” ” شیور تم ڈیسیشن لینے کے بعد مجھے انفارم کردینا بہتر ہوگا تم خود ان سے کانٹیکٹ کرلو انہوں نے اپنا نمبر دیا ہے ” ” اوکے سر ” ٹھیک ہے اب تم جاسکتی ہو ” پرنسپل کے آفس سے نکل کر ڈیپارٹمنٹ تک جاتے ہوئے وہ یہی سوچ رہی تھی کہ گھر میں کیسے بات کرنا ہے ۔ بات کرنی ہے
” امی اور کتنی دیر لگے گی ابو کے آنے میں ؟ آٹھ تو بج چکے ہیں ” اس نے کوئی پانچویں بار امی سے پوچھا تو اب کی بار انہوں نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا ” بات کیا ہے بتاوگی روزانہ تمہارے ابو اسی وقت پر ہی آتے ہیں نا پھر آج کیوں تمہیں ہول اٹھ رہے ہیں ” وہ ” طوبیٰ گڑبڑاگئی ” ابو کے آنے کے بعد بتاتی ہوں ” وہ جلدی سے کچن سے نکل گئی مقررہ وقت پر ابو گھر آئے تو اسے منتظر پایا کھانے سے فارغ ہونے کے بعد وہ چائے لیکر ٹی وی لاوٴنج میں ابو کے پاس آئی جہاں وہ کوئی نیوز چینل سرچنگ کر رہے تھے "ابو مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے ” بولو بیٹا ” اس نے اپنی ہمت مجتمع کی اور کالج میں ہونے والے تمام واقعات ابو کے گوش گزار کی ڈرتے ڈرتے اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا ابو کے برخلاف امی کا رسپانس حسب توقع تھا پہلے تو ابو کو ان کے لاڈ پیار کی وجہ سے ہی اس کے بگڑنے کا سبب کہا پھر کالج والوں کی کارکردگی پر بھڑاس نکالا اور آخر میں امی کا غصہ اس جملے پر ختم ہوا کہ ” مجھے تمہیں کالج کو ہی نہیں بھیجنا چاہئے تھا ” امی کی ڈانٹ ڈپٹ اور غصہ کے آگےدرمیان میں اس نے منمناتی آواز میں کچھ کہنا چاہا مگر اس کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق ہوگئی ” مجھے یہ مناسب نہیں لگتا اور میں تمہیں اس کی اجازت کبھی نہیں دونگا ” ابو کا حتمی فیصلہ سن کر اس کی امیدوں پر پانی پھر گیا حالانکہ اسے اچھی طرح پتہ تھا کہ امی ابو کا ردعمل کچھ اس طرح ہی ہوگا گوتم کپور کو فون کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی اس نے پرنسپل سے کہ دیا کہ اسے گھر میں اجازت نہیں ملی اس لئے وہ مجبور ہے۔
اس واقعہ کو گزرے بھی دو ماہ ہوچکے تھے اس کا سمسٹر بھی قریب آرہا تھا تھوڑے دنوں کے لئے وہ سب ایکٹیوٹیز بھول کر پڑھائی میں مصروف ہوگئی اس دن اتوار تھا چھٹی ہونے کی وجہ سے وہ دیر تک سوتی رہی امی کے خالہ زاد بھائی وقار ماموں کے گھر محفل میلاد تھی تمام خاندان والوں کو انوائٹ کیا گیا تھا وہ لوگ بھی مدعو تھے چار بجے وہ تیار ہوکر امی کے ساتھ ماموں کے گھر پہنچی تو ابھی صرف چند مہمان ہی آئے تھے چائے کے لوازمات سے فارغ ہونے کے بعد ساڑھے پانچ بجے باقاعدہ محفل کا آغاز ہوا خاندان میں جہاں کہیں بھی محفل میلاد منعقد ہوتی طوبیٰ ہی ہمیشہ حمد اور نعت سے آغاز کرتی ۔
کوئی بتائے دریاؤں کو ایسی روانی کس نے دی
کس نے چمکتا دن بخشا ہے رات سہانی کس نے دی ننھے منے پودوں کو گلشن میں جوانی کس نے دی
وہ ایکتا قدرت بھی ایکتا ایسا ہے میرا الله الا الله ۔۔۔الااللہ۔۔۔۔۔الا اللہ ۔۔۔۔۔الا اللہ
اس کی آواز میں سوز تھا خواتین بہت محو ہو کر سن رہی تھیں حمدیہ کلام کے بعد اس نے دو نعتیں پڑھیں اختتام پر سبحان الله اور ماشاء الله کی آوازیں دیر تک گونجتی رہیں نوجوان لڑکیوں نے اس کی آواز کو موبائل میں ریکارڈ کرلیا تھا دوسرے روز کچھ کزنر نے اسے بھی فارورڈ کردیا تھا ابو کو اس نے وہ ریکارڈ سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے اور اس کی بہت حوصلہ افزائی کی ” مجھے جی کے میوزک کمپنی سے آفر ملی تو تھی ایک اچھا موقع مس ہوگیا ” اس نے منہ بسور کر کہا ” تمہارے دماغ میں وہ خناس پھر سے شروع ہوگیا ” امی کا پارہ پھر سے ہائی ہوگیا تو وہ دبک گئی ” خیر گانے کی اجازت تو میں کبھی نہیں دے سکتا ہاں تمہارے اس شوق کے پیش نظر ایک راہ نکل سکتی ہے طوبیٰ نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا ” کیا کہنا چاہتے ہیں آپ کھل کر کہیں نا ” امی کو بھی تجسس نے آگھیرا ” دیکھو بیٹا ” ابو نے رسانیت سے کہا ” یہ سچ ہے کہ تمہاری آواز قدرتی طور پر بہت اچھی ہے میں نے تمہیں غزل اور گانا گاتے ہوئے بارہا سنا ہے لیکن آج حمد و نعت پڑھتے ہوئے تمہاری آواز بہت ہی مٹھاس اور تمکنت سے بھر پور لگتی ہے کیوں نہ تم حمد ونعت کی ایک سی ڈی نکالو ” ” سچ ابو ” اس نے ابو کی بات مکمل بھی نہ ہونے دی ” کیا ایسا ہوسکتا ہے ” ہاں کیوں نہیں میں ایک جاننے والے کے توسط سے تمہاری بات کرتا ہوں ان کے ایک رشتہ دار کسی کمپنی سے وابستہ ہیں لیکن اس کے لئے تمہارا خالص ہونا ضروری ہے ” ” خالص سے آپکی مراد کیا ہے ” ” طوبیٰ بچے تم گانا گاتے ہوئے اور غزل پڑھتے ہوئے سر اور تال کا جس طرح دھیان رکھتی ہو حمد و نعت میں اس کے برعکس خلوص کا ہونا از حد ضروری ہے حمد پڑھتے ہوئے خدائے تعالیٰ کی تعریفوں اور نعمتوں کو دھیان میں رکھناہے اور عشق نبی میں وہ سوز ، درد اور محبت جھلکنی چاہئے جو امت محمدی کے لئے ضروری ہے اس لئے حمد و نعت پڑھتے وقت تلفظ ،ادائیگی اور اسکیل کی ہی ضرورت نہیں بلکہ اس میں خلوص ، جذبہٴ عشق اور وارفتگی کا ہونا بھی ضروری ہے ” ابو نے تفصیل سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ” جی ان شاء الله ابو میں پوری کوشش کرونگی کہ آپکی امیدوں پر کھری اتروں ” خدا تمہیں کامیاب کرے ” امی نے دعائیں دیتے ہوئے کہا پھر بعد کے کام بہت تیزی سے ہوتے چلے گئے اس نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر منتخب کلام پڑھااس دوران اسے اس بات کا ادارک ہوا کہ جو بات اور جو سکون حمدو نعت پڑھتے ہوئے ملی ہے وہ کبھی گانے سے حاصل نہیں ہوئی واقعی رب کائنات کی تعریف و ثناء اور اس کے حبیبؐ کے عشق کی بات ہی کچھ اور ہے جس دن اس کا پہلا البم ریلیز ہوا اس کی آنکھیں احساس تشکر سے بھیگ رہی تھیں نعت خانوں میں جنید جمشید اور حوریہ فہیم اس کے پسندیدہ تھے اس نے جنید جمشید کی پہلی نعتوں کا البم ” جلوہ جاناں ” کی مناسبت سےاس کے البم کا نام ” گنبدِ خضراں ” رکھا گھر کے افراد اور خاندان کے قریبی لوگوں کے علاوہ اس کی دوستوں نے بھی اس کی خوشی میں حصہ لیا ابو نے اس موقع پر ایک چھوٹی سی پارٹی کا بھی انتظام کیا تھا اورصبح سے لگاتار مبارکبادی کا سلسلہ بھی جاری تھا اس بے روشنیوں میں نہائے ہوئے اس پرُ تقدس تقریب کو جھلملاتی نظروں نظروں سے دیکھا اور ایک بار پھر اس کی آنکھیں بارگاہِ ایزدی میں تشکر سے جھک گئیں واقعی اس نے آج سچی اور بے لوث خوشی کو محسوس کرلیا تھا-