کتاب ’’مرقعِ حیدرآباد‘‘ کی رسمِ اجرا
مصنف : علامہ اعجاز فرخ
ایک طویل انتظار کے بعد آخرکار علامہ اعجاز فرخ صاحب قبلہ کی کتاب ’’ مرقع حیدرآباد ‘‘ کی رسم رونمائی 18 ستمبر 2017 کی شام چھ بجے بمقام نہرو آڈیٹوریم، مدینہ ایجوکیشن سینٹر، نامپلی، حیدرآباد مقرر ہے۔ کتاب کا رسم اجرا جناب محمد محمود علی صاحب، نائب وزیرِ اعلیٰ، حکومتِ تلنگانہ انجام دیں گے۔ تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی اس تقریب کی صدارت جناب جعفر حسین معراج کریں گے۔ مہمانانِ خصوصی میں ڈاکٹر کے۔ کیشو راؤ، جناب بنڈارو دتاتریہ، جناب اے۔ کے۔ خان، جناب ایم۔ ایس۔ پربھاکر راؤ، جناب سید عمر جلیل اور محترمہ ممتا گپتا ہوں گے۔
پروفیسر ایس۔اے۔شکور ڈائرکٹر/ سکریٹری، تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈمی نے تقریبِ رسمِ اجرائے کتاب ’’مرقعِ حیدرآباد‘‘ میں پابندیٔ وقت کے ساتھ شرکت کی خواہش کی ہے۔
شاید یہ پہلا موقع ہے کہ کسی کتاب کی رسمِ اجرا میں کسی مبصر کو موقع نہیں دیا گیا ہے جبکہ علامہ کی کتاب پر نہ صرف بھرپور تبصروں کی گنجائش ہے بلکہ علامہ کے زبان و بیان پر اظہار خیال ناگزیر ہے ۔ دعوت نامہ دیکھنے پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک ادبی و تہذیبی و ثقافتی تصنیف کی رسم اجر ایک سیاسی تقریب میں تبدیل ہوگئی ہے۔ مانا کہ یہ کتاب تلنگانہ اردو اکیڈمی نے شائع کی ہے ۔ کیا اردو اکیڈمی ایک دو مبصرین کا انتظام نہیں کرسکتی تھی؟
علامہ اعجاز فرخ کے سلسلے میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ ماضی کے باشندے ضرور ہیں لیکن حال سے بے خبرنہیں۔ماضی کے کھنڈر کا ہر پتھر اُن سے سرگوشی کرتا ہے بلکہ ہوا بھی اُن کی رازدارہے۔علامہ حال کی زبان ہی سے نہیں بلکہ اُس کے لہجے کی کھنک سے بھی واقف ہیں ، اسی لئے وہ نہ صرف ماضی کو حال سے پیوست کرنے کا ہنر جانتے بلکہ ماضی کے رنگ کی ترسیل پر بھی قدرت رکھتے ہیں ۔
دلّی کی تہذیبی تاریخ کسی نہ کسی طرح محمد حُسین آزاد،ڈپٹی نذیر احمد،خواجہ حسن نظامی،پروفیسر آغا حیدرحسن دہلوی نے محفوظ کی۔ لکھنؤکی مرصع تاریخ رجب علی بیگ سرور ‘عبدالحلیم شرر،جعفر علی خان اثر،قرۃالعین حیدر ‘ جیسے قلمکاروں کی روشنائی میں اپنے پورے خدوخال کے ساتھ محفوظ ہے۔حیدر آبادکی تاریخ تو مرتب ہوئی، اسے کئی زاویوں سے دیکھا گیا لیکن اس کی تہذیب اور شہر نشینی کی تفصیلی تاریخ شائد ہی لکھی گئی ہو۔اس شاندار تاریخ کے بیشتر لمحات اور کردار اس لائق ہیں کہ انھیں زر نگاری سے محفوظ کیا جانا چاہئے۔
علامہ اعجاز فرخ سے کون ادب دوست واقف نہیں۔ کوئی چالیس سال سے زیادہ عرصے سے وہ روزنامہ سیاست میں لکھتے رہے ہیں اور اپنی مخصوص طرز نگارش اور اسلوب کی وجہ سے منفرد بھی ہیں۔ مرقع حیدرآباد اُن کی ایک بیش بہا تصنیف ہے جو حیدرآباد کی مرصع تاریخ کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔یہ تاریخ صرف شاہی کی تاریخ نہیں بلکہ انسانوں کی سانس لیتی ہوئی تاریخ ہے جس میں ہر لمحہ بات کرتا سنائی دیتا ہے۔ علامہ کے ذخیرے میں قدیم حیدرآبادکی بیش بہا تصویریں ہیں۔یہ کتاب اپنے متن کے علاوہ ان بیش قیمت تصویروں سے مزیّن ہے۔ اُنہوں نے اس مُرقع کو دو حصوں میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔قطب شاہوں کی آمد سے میر محبوب علی خان آصف سادس تک، پہلی جلد اور میرعثمان علی خان کے عہد سے انضمام ریاست تک دوسرے حصے میں شامل رہے گا۔دونوں جلدیں ایک ہزار سے زیادہ تصویروں اور اس سے کچھ زیادہ علامہ کے زور قلم سے کھینچی ہوی تصویریں صدیوں کے سرمایہ کو نئی نسل تک پہنچانے کا سامان فراہم کریں گی۔ان کی پچھلی کتابیں ،حیدرآباد شہر نگاراں اورگلمسز آف حیدرآباد کو نائب صدر جمہوریہ جناب حامد انصاری صاحب نے حیدرآباد آکر ریلیز کیا تھا اور ستائش کی تھی۔خامہ خوں چکاں اپنا،عکس حیدرآباد حصہ اول و حصہ دوم،مطبخ آصفیہ سب اپنی اشاعت کے دو مہینے کے اندر اندر فروخت ہو گئیں۔علامہ اعجاز فرخ کا مزاج کچھ ایسا ہے کہ ،،نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ،،وہ اپنے قاری کو اپنا سرمایہ اور اپنا انعام تصور کرتے ہیں۔ پچھلی کتابوں کی قیمت اُن کے ناشرین نے زیادہ رکھی،کتابیں تو فروخت ہوگئیں لیکن اُن کے قاری اُسے حسرت سے دیکھتے رہ گئے۔ہمیں اس بات کا بھی علم ہے کہ علامہ کتابت‘کاغذ ‘روشنائی اورنفیس طباعت سے کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔جہان اُردو کی علامہ سے گزارش ہے کہ اس کتاب کو عام قاری کی رسائی تک کا اہتمام کریں ۔
——-
Allama Aijaz Farruq
,18-8-450/4 ,SILVER OAK, EDI BAZAR
,NEAR SRAVANI HOSPITAL HYDERABAD- 500023
Mob.: +919848080612