تحقیق کیا ہے ؟ : – ڈاکٹر حامد اشرف

Share
ڈاکٹر حامد اشرف

تحقیق کیا ہے ؟

ڈاکٹر حامد اشرف
اسو سی ایٹ پروفیسر و صدر شعبۂ اردو ٗ
مہاراشٹرا اودے گری کالج ٗ اودگیر ۔ضلع لاتور ۔413517(مہاراشٹرا)

اردو ادب میں کارِ تحقیق کا تصور زیا دہ قدیم نہیں ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک اردو تحقیق کو بنجرریگستان اور شجرِ بے سایہ دار کہا جاتا تھا۔حالانکہ خالقِ کائنات اللہ رب العزت نے انسانی فطرت میں تحقیق و جستجو کا مادہ ازل سے پوشیدہ رکھا ہے۔یہ اگر نہ ہو تو انسانی شخصیت ٗ ذہنیت ٗ صحت اور روحانیت کا ارتقاء رک جائے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ ہم کہیں لوگوں کا اجتماع دیکھتے ہیں تو ہماراتجسّس بڑھ جاتا ہے کہ کیا ہوا؟ اتنے سارے لوگ ایک ساتھ جمع کیوں ہیں؟ خیریت تو ہے؟

موسموں کی ٹھنڈک ٗ حدت اور شدت سے بچنے کے لیے محفوظ مکان کی تلاش ٗ جسم ڈھانکنے کے لیے کپڑا ٗ کھانا پکانے کے لیے آگ ٗ دشمنوں سے بچنے کی تدابیر اور جانوروں کے شکار کے طریقوں کے علا وہ دنیا کے تمام مذاہب اور علوم و فنون کی تخلیق و ترقی اسی جستجو اور تحقیق کے سہارے ہوئی ہے۔مرزا محمد رفیع سوداؔ نے تحقیق کی اسی ضرورت و اہمیت کے پیشِ نظر کہا تھا کہ
؂سودا ؔ نگاہِ دیدۂ تحقیق کے حضور
جلوہ ہر اک ذرّے میں ہے آفتاب کا
اردو میں تذکرے ٗ نہ صرف تنقید کا بلکہ تحقیق کا بھی بنیادی مآخذ سمجھے جاتے ہیں۔
ہندوستان میں تذکروں کے بعد تحقیق کے باب میں مستشرقین کی خدمات کو سر آنکھوں پر جگہ دی جاتی ہے۔یہاں گارساں دتاسی اور اُن کے معاصرین و شاگردوں میں جان جیمس ٗ جان شےأر ٗ ڈنکن فاربس ٗ اسٹیوارٹ ٗ اشپرنگر ٗبراؤن وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں ٗ جنہوں نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت ٗ معاشرت و معیشت ٗ اور شعرو ادب کی تحقیقی راہوں کو مستنیر کیا ۔اس سلسلے میں سر سید احمد خان اور اُن کے رفقائے کرام کی شعبہ ہائے زندگی پر محیط تصانیف نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ با لخصوص سر سید احمد خان کی ’آثار الصنادید‘’ آئینِ اکبری ٗ تاریخِ فیروز شاہی ٗ اور ’تزک جہا نگیری ‘ کی تدوین ٗ مولانا محمد حسین آزاد کی ’دربارِ اکبری ‘’سخن دانِ فارس ‘ اور ’آبِ حیات ‘ مو لانا حالی ؔ کی سوانح عمریاں ’یادگارِ غالب ٗ حیاتِ سعدی ‘ اور’حالاتِ حکیم ناصر خسرو ‘ علامہ شبلی نعمانی کی استقرائی تحقیق پر مشتمل ’الفاروق‘ ’المامون ‘’ علم الکلام ‘ اور فارسی ادبیات پر تنقید و تحقیق ’شعر العجم ‘ قابلِ ذکر ہیں۔ نیز 1830ء میں رائل ایشیاٹک سوسا ئٹی ٗ سینٹ فورٹ کالج (مدراس )فورٹ ولیم کالج (کلکتہ) اور دہلی کالج (دہلی) کا قیام بھی اردو تحقیق کی سرگرمیوں کا نقطۂ آغاز ہے۔
تحقیق کے معنی کھوج ٗ دریافت ٗ تفتیش اور چھان بین کے ہیں۔ تحقیق کا لفظ عربی ہے ۔جس کا مادہ ح ق ق اور مصدر تحقیق ہے، قا ضی عبد الودود کے الفاظ میں ’’ تحقیق کسی امر کو اُس کی اصلی شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے ‘‘۔تحقیق کی تعریف میں ڈاکٹر جمیل جالبی رقمطراز ہیں کہ
’’تحقیق کے معنی ہیں کسی مسئلے یا کسی بات کی کھوج لگا کر اِس طور پر ٗاس کی تہہ تک پہنچنا کہ وہ مسئلہ وہ بات اصل شکل اور حقیقی روپ میں پوری طرح سامنے آ جائے۔(1)
انگریزی لفط ریسرچ ٗ دو لفظوں سے مرکب ہے۔ری اور سرچ ٗ ری بمعنی دوبارہ اور سرچ یعنی تلاش ٗ مطلب یہ کہ بار بارتلا ش یا بار بار تحقیق جس سے مشاہدہ یقین اور سچائی کی منزل پر پہنچ جائے ۔ڈاکٹر یو سف سر مست کے مطابق
’’تحقیق کے لیے انگریزی میں ریسرچ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ٗجس سے مراد صرف حقائق کا جمع کرنا نہیں ہے بلکہ تحقیق کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ حقائق کا از سرِ نو جائزہ لے کر نئے نتائج تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔‘‘ (2)
ریسرچ کی اہمیت اور افادیت کا اظہار اللہ رب العزت کی بنائی ہوئی کائنات سے بھی ہوتا ہے کہ روشنی اور بجلی کے علا وہ ہائیڈروجن اور آکسیجن وغیرہ تو ہزاروں سال سے کائنات میں مو جود ہیں لیکن انہیں انسان نے صرف معلوم کیا ۔اسی طرح زمین کی قوتِ کشش اور قطب نما کی دریافت ٗ تہذیبی خزانوں کی تلاش ٗ بھاپ کا انجن ٗ توپ اور مطبع کی ایجاد ٗطب ٗ اقلیدس ٗ تاریخ ٗ ادب ٗ علمِ حیوانات ٗ نباتات ٗ جمادات ٗ سیاحت ٗمعماری ٗ سنگ تراشی ٗ مصوری ٗ فلسفہ کے علا وہ مذہبی اور اخلاقی تعلیم کے دروازے تحقیق ہی کی بدولت وا ہوئے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ انسان اگر زندگی میں کوئی ایک ریسرچ ورک کر لے تو اس کی نجات کے لیے کافی ہے لیکن بقراط( فادر آف میڈیسن) جو حضرت عیسٰی علیہ السلام سے تقریباً (450) سال پہلے گزرا ہے۔اس کا اور جا لینوس کا تحقیقی کام اس قدر زیادہ ہے کہ جس کے مقا بلے میں زمانۂ حال کا ریسرچ ورک ایک چو تھا ئی بھی نہیں معلوم ہوتا ہے۔ جسے دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کی ایک مشہورکتاب ’’ فصولِ بقراط ‘‘ ہے ٗ جس کی چھے (6) شرحیں لکھی گئی ہیں اور چار زبانوں اردو ٗ فارسی ٗ عربی اور جرمنی میں اس کے تر جمے کیے گئے ہیں۔اس کتاب کے آغاز میں اصولِ تحقیق سے متعلق رہنمائی کی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ عمر چھوٹی ہے ٗ فن بہت طویل ہے ۔وقت بہت تنگ ہے ۔تجربے میں خطرات ہیں اور قطعی حکم لگانا دشوار ہے۔بقراط نے قیاس اور تجربے کے علا وہ یقینی مشا ہدے کو تحقیق کے لیے ضروری بتایا تھا۔چناں چہ بعد کے زمانے کے محققین بھی بقراط کے نظریات کی تبلیغ کرتے رہے اور قیاس اور تجربہ کوہی تحقیق کی اصل بتاتے رہے ۔ محققین جب کسی چیز کا بار بار مشاہدہ کرتے اورنتیجہ ہمیشہ ایک جیسا پاتے تو اسے تجربے سے تعبیر کرتے۔تا ہم کبھی کبھی اُن کے مشاہدات سے غلط نتائج بھی سامنے آتے تھے۔جن میں سے کچھ درجِ ذیل ہیں۔(3)
۱۔دوربین سے جو اشیاء دیکھی جاتی ہیں وہ قد و قامت کے لحاظ سے بڑی نظر آتی ہیں جبکہ وہ چھوٹی ہوتی ہیں۔
۲۔آفتاب طلوع سے آٹھ منٹ پہلے اور غروب کے آٹھ منٹ بعد بھی نظر آتا ہے ٗ حالانکہ وہ اس وقت وہاں نہیں ہوتا۔
۳۔اگر ایک روپیے کا سکہ موم سے کٹورے میں جما دیا جائے اور کٹورے کو دور کرتے جائیں ۔یہاں تک کے روپیہ دکھائی نہ دے۔لیکن جب کٹورے میں پانی ڈالیں تو وہ سکہ نظر آنے لگتا ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقام سے اونچا ہوگیا ہے جبکہ ٗ وہ اسی مقام پر جما ہوتا ہے۔
۴۔اگر انگھوٹی کو آنکھ سے قریب کر دیا جائے تو وہ بڑی نظر آتی ہے جبکہ وہ چھوٹی ہوتی ہے۔
۵۔دور کی چیز اپنی اصل مقدار سے چھوٹی نظر آتی ہے ٗ حقیقتاً وہ بڑی ہوتی ہے۔
۶۔اگر چکی پر مختلف رنگوں کے خطوط مرکز سے محیط تک کھینچے جائیں اور اُنہیں تیزی سے گردش دی جائے تو سبھی رنگ ایک نظر آتے ہیں۔
۷۔سراب پانی دکھائی دیتا ہے جبکہ درحقیقت وہ پانی نہیں ہوتا۔
۸۔بارش کا قطرہ ایک طولانی خط نظر آتا ہے ٗ حالاں کہ وہ ایسا نہیں ہوتا۔ ۹۔شعلے کو تیزی کے ساتھ گردش دی جائے تو ایک دائرہ محسوس ہوتا ہے در حقیقت وہ دائرہ نہیں ہوتا۔
۱۰۔کشتی اور ریل کا مسافر اپنے کو ساکن اور اور اطراف کی چیزوں کو متحرک محسوس کرتا ہے ٗ جب کہ وہ خود متحرک اور اطراف کی چیزیں ساکن ہوتی ہیں۔
مذکورہ بالا مشاہدے عقل و قیاس پر مبنی ہیں ۔ہم ان پر حجت اور دلیل قائم نہیں کر سکتے۔ بلکہ یقینی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ہمیں واقعات ٗ تجربات و مشاہدات کو حق کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہو جاتاہے۔شفأالملک پروفیسر حکیم مولوی عبد اللطیف صاحب (علی گڑھ) ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ
’’ ریسرچ دو طرح کی ہوتی ہے ارادی اور غیر ارادی۔ارادی ریسرچ وہ ریسرچ ہے جس میں چند منطقی قیاسات کے تحت کوئی نظریہ قائم کیا جاتا ہے۔پھر اُسے عملی تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں مستحکم طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔اگر دماغ منطقی نظر و فکر سے غافل رہے یا تجر بات سے نا آشنا رہے تو سارا وقت ضائع اور محنت رائیگاں اور نتیجہ غلط بر آمد ہوتا ہے۔غیر ارادی ریسرچ بغیر ارادہ کوئی چیز کے منکشف ہو جانے سے تعلق رکھتی ہے۔جسے چار طریقوں پر منقسم کیا جا سکتا ہے۔۱۔ الہامات ۲۔ اتفاقات ۳۔تقلیدِ حیوانات اور ۴۔مشاہدات و تجربات‘‘ (4)
مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر مذکورہ بالا ریسرچ کے طریقوں کی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ بالا ریسرچ کے طریقے چاہے سا ئنسی تحقیق ہو یا سماجی یا کہ ادبی تحقیق ٗ نہایت کارآمد ہیں ۔ ادبی تحقیق بھی ان دنوں بہت زیادہ سائنٹفک ہوگئی ہے۔ زبان و ادب کے محققین کا جہاں تک سوال ہے ٗ وہ اپنے مو ضوع سے متعلق نئے اور پرانے دلائل پر ٹھنڈے دل سے غور کرتے ہوئے واقعات کی حقیقت تک پہنچتے ہیں ،اُس کے داخلی اور خارجی امور کی جانچ کرتے ہیں اورصبرو تحمل کے ساتھ ذوق و شوق کے سہارے تحقیق کی راہوں کو منزل بہ منزل عبور کرتے ہیں ۔راقم السطور کی رائے میں تحقیق ایک مسلسل عمل اور سعئ پیہم کا نام ہے ۔ انسانی ذرائع معلومات میں ہر دن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔اس لیے تحقیق حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ تا ہم محققین کو صرف حافظے کے سہارے ہی نہیں ہونا چاہیے ٗ کیونکہ حافظہ کبھی کبھی دھوکہ دیا کرتا ہے۔
قاضی عبدالودود صاحب نے آقائے پور داؤد کے حوالے سے لکھا ہے کہ
’’ قزوینی نے مرزبان نامہ کی ترتیب و تصیح میں بڑی احتیاط سے کام لیا تھاٗ لیکن اُن کا مرتبہ نسخہ ایران پہنچا تو بہت سی خلطیاں نکالی گئیں ،قز وینی کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے عہد کیا کہ سورہ اخلاص کی آیت بھی آئیندہ نقل کرنی ہوگی تو دیکھ لوں گا کہ قرآن میں کس طرح ہے۔ظاہر ہے کہ سب یا بیشتر اغلاط کا ذمہ دار اُن کا حافظہ تھا۔انہوں نے اُس پر اعتماد کیا اور اُس نے دھوکہ دیا۔‘‘ (5)
آج تک یہ کہا جاتا رہا ہے کہ حضرت امیر خسرو نے زبانِ ’’ہندوی‘‘ میں بھی شعر کہے ہیں۔دکنی تصنیف ’’ سب رس‘‘ کے علاوہ میر تقی میر ؔ کے تذکرے ’’ نکات الشعراء‘‘ اور محمد حسین آزادؔ کی ’’ آبِ حیات ‘‘ سے چند دوہے ٗ پہیلیاں اور کچھ کہہ مکرنیاں سامنے آ گئی ہیں لیکن امیر خسرو کا ہندوی شعری سرمایہ تا حال پردۂ خفا میں ہے اور جو کچھ منظرِ عام پر آیا ہے وہ قابلِ قبول حوالوں سے عاری ہے اور ’’تحقیق میں دعوے سند کے بغیر قابلِ قبول نہیں ہوتے اور سند کے لیے ضروری ہے کہ وہ قابلِ اعتماد ہو۔‘‘
اردو کے جن محققین نے شبانہ روز صحرا نورد بن کرچاہ و تالاب کھنگالے اور زمانے کے سمندر سے گوہرِ مراد برآمد کیا۔ان میں امتیاز علی خان عرشی ٗ قا ضی عبدالودود ٗ ڈاکٹر گیان چند جین ٗمالک رام کے علا وہ مولوی عبد الحق ٗ خواجہ احمدفاروقی ٗ مسعود حسین رضوی ٗ رشید حسن خان ٗ ڈاکٹر ظہیر صدیقی ٗ ڈاکٹر نور الحسن نقوی ٗ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ٗ ڈاکٹر قمر رئیس ٗ ڈاکٹر خلیق انجم ٗ ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی ٗ ڈاکٹر مسعود حسین خان ٗکلبِ عماد اور عبد الرزاق قریشی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔جنہوں نے تحقیق کے حدود اور دائرۂ کار بڑھانے کے لیے بے شمار قلمی نسخے دریافت کیے۔ معروف اُدباء و شعرا ء کی تصانیف کے مستند متن تیار کیے اور اُنہیں اغلاط سے پاک کیا۔ رشید حسن خان نے ’’فسانہۂ عجائب ‘‘ اور ’’باغ و بہار‘‘ اور مالک رام نے فضلی ؔ کی ’’کربل کتھا ‘‘ مدون کر کے شائع کی اور اُس میں رموز و اوقاف کا خیال رکھتے ہوئے اعراب بھی لگائے ۔جس کی وجہہ سے متروک الفاظ کا املا درست اور اشعار کے اوزان معلوم ہوئے۔نیز مذکورہ بالا محققین نے تاریخ ادب کے ادوار مقرر کیے۔ واقعات کے سلسلے Bibliography تیار کرتے ہوئے ابجدی اشاروں میں تقویم Chronologyاور Concordanceلفظ شماری ٗ اشاریہ سازی اور کیٹلاگ بنائے۔ زبان و ادب ٗ تہذیب و ثقافت اور تاریخ سے متعلق مخطوطات دریافت کیے ۔تحقیق کے مو ضوعات پر تحقیق کا فن‘’مبادیاتِ تحقیق ٗ ’تحقیق شناسی ٗ’ تحقیق کے طریقۂ کار ‘ ’ تدوینِ متن کے مسا ئل ‘’ ادبی تحقیق ۔مسائل اور تجزیہ ‘’اردو میں اصولِ تحقیق ‘’اصولِ تحقیق و ترتیبِ متن ‘ ’ادبی اور لسانی تحقیق‘’ادبی تحقیق‘’تحقیق و تد وین ‘ ’تحقیق و تنقید‘ ’چند تحقیقی مبا حث ‘’عما دالتحقیق ‘جیسی گراں قدر تصانیف سے گلستان تدوین و تحقیق میں تازہ پھول کھلائے۔
جہاں تک دکنی ادب و تحقیق کا سوال ہے ٗ اس باب میں مولوی عبدالحق ٗ ڈاکٹر محی الدین
قادری زور ؔ ٗ شمس اللہ قادری ٗ پروفیسر عبد القادر سروری ٗنصیر الدین ہاشمی ٗ پروفیسر محمود شیرانی ٗ پروفیسر حفیظ قتیل ٗ شاہد صدیقی ٗ پروفیسر نجیب اشرف ندوی ٗ عبد الجبار ملکا پوری ٗ پروفیسر مجید صدیقی ٗ سعادت علی رضوی ٗ مولوی سید محمد ٗ پروفیسر مسعود حسین خاں ٗ گیان چند جین ٗ پروفیسر رفیعہ سلطانہ ٗ پروفیسر سیدہ جعفر ٗ ڈاکٹر یوسف سرمست ٗ ڈاکٹر جاوید وسشٹ ٗ پروفیسر محمد علی اثر اور پروفیسر نسیم الدین فریس وغیرہ نے دکنی زبان و ادب کو سمت اور راہیں عطا کیں اور تحقیق و تدوین کو وقار عطا کیا۔جس کے نتیجے میں ’تا ج الحقائق‘’معراج العاشقین ‘’کلمۃ الحقائق‘’ تلا وۃ الوجود‘ ’کلیاتِ محمد قلی ‘’ نو سر ہار ‘’ اردو شہ پارے ‘’تذکرہ شعرائے د کن‘ ’ ار دو کی نشونما میں صوفیائے کرام کا حصّہ ‘’ ملّانصرتی‘’ سب رس ‘ ’دکن میں اردو‘’بکٹ کہانی‘’ابراہیم نامہ‘’ پھول بن‘’ چندر بدن و ماہیار‘’سیف الملوک و بدیع الجمال‘’ سکھ رنجن‘’من سمجھاون‘’ یوسف زلیخا ‘ ’ماہِ پیکر‘’جنت سنگھار‘’ شا ہ امین الدین اعلیٰ‘’من لگن‘’چت لگن‘’معراج العا شقین کا مصنف کون ؟‘’ بوستانِ خیال ‘’ گلشنِ عشق ‘ وغیرہ نایاب اور بیش قیمت کتب منظرِ عام پر آئیں۔
ہندوستان میں آزادی کے بعد تحقیق کی سرگرمیاں اور تیز ہو گئیں۔مذکورہ بالا محققین کے علا وہ برج موہن دتاتریہ کیفی ‘ڈاکٹر جمیل جالبی ٗ ڈاکٹر تنویر علوی ٗ ڈاکٹر ابوللیث صدیقی ٗ ڈاکٹر شوکت سبز واری ٗ ڈاکٹر تبسم کاشمیری ٗ ڈاکٹر وحید قریشی ‘’ ڈاکٹر سید عبد اللہ نے بھی اردو تحقیق کے مدارج بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
موجودہ دور میں اردو تحقیق کی ترقی یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرس کی رہینِ منّت ہے۔اس سلسلے میں ڈاکٹر گیان چند رقمطراز ہیں:
’’ آزادی کے بعد ہندو پاک میں اردو کی اعلیٰ تعلیم جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہے۔اس دور میں ادبی تحقیق کو اتنا فروغ ملا کی اسے اردو تحقیق کا زرّین دور کہہ سکتے ہیں۔‘‘(6)
ڈاکٹر گیان چند کی رائے سے صد فیصد اتفاق کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ حال ہی میں سنٹرل یو نیورسٹی ٗ حیدرآباد کی ایک اسکالر نے ایم۔فل کے لیے ایک مقالہ ’ ’ہندوستان کی یو نیورسٹیوں میں اردو تحقیق‘‘ کے زیرِ عنوان قلمبند کیا ہے ۔جس میں وہ لکھتی ہیں کہ
’’ اس وقت ہندوستان کی ستر(70) یو نی ورسٹیوں میں تحقیقی کام ہو رہے ہیں۔86یونیورسٹیوں میں شعبۂ اردو (ایم۔اے۔) قائم ہے ٗ14یونیورسٹیوں میں ایم۔فل کا کورس شامل ہے ۔ 70 سے زائد یونیورسٹیوں میں پی ایچ۔ڈی کے مقالات قلمبند ہو رہے ہیں اور 12یو نیورسٹیوں میں ڈی۔لٹ کی ڈگری دی جا چکی ہے۔‘‘(7)
جہاں ایک طرف یہ خوش آئند بات ہے وہیں لمحۂ فکریہ ہے کہ اس طرح تحقیق کا معیار پست بغایت پست ہوتا جا رہا ہے ۔ آئے د ن سرقے کی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں۔
پی ایچ۔ڈی انٹرنس ٹیسٹ میں کسی طرح پاس ہونے پر طلبہ کو یونیورسٹی ٗکسی نہ کسی ریسرچ گائیڈ کے تفویض کر دیتی ہے۔بیشتر طلباء نہ صرف تحقیق اور اصولِ ِ تحقیق سے نا بلد ہوتے ہیں ٗ بلکہ تخلیقی صلاحیتوں سے بھی عاری ہوتے ہیں۔ نا اہلی ٗتن آسانی اور حصولِ علم کی کو تاہی کے با وصف کسی پیشہ ور مقالہ نگار کی خدمات حاصل کرتے ہوئے اُلٹے سیدھے طور پر ادخال مقالہ کے بعد Ph.D. کی ڈگری حاصل کر لیتے ہیں۔ اس ضمن میں بیشترریسرچ گا ئیڈکو بھی موردِ الزام ٹہرایا جا سکتا ہے۔ بوجوہ سوامی رامانند تیرتھ مراٹھواڑہ یو نیورسٹی ٗ ناندیڑ نے ریسرچ اسکالرس کے لیےPh.D.Cource Work کا لزوم رکھا ہے اور ریسرچ میتھا ڈولوجی ٗ کمپیوٹر اپلی کیشن اور Topicسے متعلق پرچہ جات کے امتحانات منعقد کر رہی ہے اور ریسرچ سنٹرس پر انٹرنل امتحانات اور Pre-Vivav voce بھی منعقد کروا رہی ہے۔نیز ریسرچ اسکالرس کو سمینار س میں موضوع سے متعلق Presentation Paper اور دو مضامین کی اشاعت کو ISSN/ISBN کے تحت ضروری گردانا گیا ہے کہ ریسرچ کے طلباء کی اصلاح ہو سکے۔
——-
حواشی:
(1) ’’تحقیق کے نئے رجحانات‘‘ ڈاکٹر جمیل جالبی ۔’’ادبی تحقیق‘‘ ص 11 ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس ۔دہلی
(2)’’ادبی تحقیق کا طریقۂ کار ‘‘ڈاکٹر یوسف سرمست ’’ تحقیق و تنقید‘‘ ص 45آل انڈیا اردو ریسرچ اسکالرس کونسل ٗ بنجارہ ہلز ٗ حیدرآباد
(3)’’ ریسرچ کیا ہے‘‘ شفأالملک پروفیسر حکیم مولوی عبد اللطیف صاحب (علی گڑھ) ص14 ہمدرد صحت ۔مئی 1958ء
(4)’’ ریسرچ کیا ہے‘‘ شفأالملک پروفیسر حکیم مولوی عبد اللطیف صاحب (علی گڑھ) ص14 ہمدرد صحت ۔مئی 1958ء
(5)’’آج کل‘‘ اردو تحقیق نمبر 1967 ء
(6)’’اردو کی ادبی تحقیق ۔آزادی سے پہلے‘‘ڈاکٹر گیان چند ۔ص239
(7)ہندوستان کی یو نیورسٹیوں میں اردو تحقیق ۔شاہانہ مریم شان ص 13 ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس ۔دہلی2012ء
——-
Dr. Syed Hamed Ashraf
اسو سی ایٹ پروفیسر و صدر شعبۂ اردو ٗ
مہاراشٹرا اودے گری کالج ٗ
اودگیر ۔ضلع لاتور ۔413517(مہاراشٹرا)
سیل نمبرس 09423351351/ 09096095310
E-mail:

Share
Share
Share