حسن فرخ
تری نواؤں میں تھا خونِ جگر کا لہو
ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985
زخم دل، زخم جگر صرف عشق کی چوٹ ہی سے اثر انداز نہیں ہوتا، یہ تو غم ذات کی بات ہوئی۔ غمِ کائنات بھی دردِ دل و درجِ جگر دے جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ غمِ ذات کا شاعر اُسی رہ گزر کی تلاش کرتا ہے جہاں سکونِ دل لٹ جاتا ہے، لیکن غمِ کائنات بھی یوں عام ہے کہ مسائل حیات میں زیادہ تر دکھ درد ہی ملتا ہے
ملے نہ درد کی دولت تو زندگی کیا ہے
بہرحال شاعر کی نواء میں خونِ جگر کا لہو تو ہوتا ہی ہے ، ورنہ شاعری اگر سوز دروں سے معراء ہو تو آب و تاب سے محروم ہوگی۔ ابتدائے آفرینش ہی سے درد و کرب کی آواز شاعری کہلائی جانے لگی۔ ابتداء میں درد بھرا لفظ ہی شاعری کا مظہر تھا اور یہی شاعری اُلوہی صفات کی حامل بھی تھی، انسان کا و عالم اکبر یا شاعر کا ، عالم اکبر ، خارجی شاعری کا احاطہ کرتا ہے، جب کہ عالم اصغر داخلی شاعری سے متعلق ہوتا ہے ایک خرد (Intellect) کی نمائندگی کرتا ہے تو دوسرا وجدان (Intuition) کی۔ اب یہ کہاں کی تقسیم ہوئی کہ شاعری کو قدامت پسند، ترقی پسند، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے خانوں میں بانٹ دیا جائے۔ شاعری کی نواء وہی ، سوز وہی خون جگر کا لہو وہی، خرد کا میدان وہی اور وجدان کی وادیاں وہی، البتہ امتدادِ زمانہ کے ساتھ جس طرح زبان و بیان کی قدریں بدلتی ہیں کچھ اسی طرح شاعرانہ اظہار کے اسالیب، علامتیں بدلتی ہیں۔ میرے خیال میں ہر گروہ میں قابل قدر شعراء تھے اور میں حسن فرخ کو اس گروہ بندی سے کہیں بالاتر ایک احسن ترین شاعر سمجھتا رہا ہوں ۔ ان کے ہاں نیا شعری لہجہ تو تھا ، لیکن لسانی ہنرمندی بھی نظر آتی تھی۔ ان کے اشعار میں لفظوں کا انتخاب غیرمعمولی ہوتا تھا، جو طرح طرح کے معنوی امکانات پیدا کردیتے تھے۔ ان کے ہاں ’’بہ ہزاروں اضطراب‘‘ اور ’’صد ہزاراں اشتیاق‘‘ جیسا تضاد بھی ملتا ہے۔ بعض مقامات پر تناسبِ لفظی، ایسا توافق و تطابق پیدا کردیتا ہے اس شعری اسلوب کے اعتدال پر داد دیئے بغیر رہا نہیں جاتا، بلک زیادہ گہرائی میں جاکر لسانی ہستیوں پر غور و خوض کیا جائے تو نحوی اور لغوی سطح پر بھی انہوں نے کئی جہتوں کا اضافہ کیا ہے۔ شعری اسلوب کے ساتھ ساتھ حسن فرخ نے شعری متن میں بھی جدت دکھائی ہے۔ انہوں نے بہت کم اپنے کو دہرایا ہے اور بہت کم دوسرے شعراء سے متاثر ہوئے ہیں، البتہ بعض نظریہ جو آفاقی ہوتے ہیں اس میں تو فکری یکسانیت و شرکت تو ایک فطری امر ہے۔ حسن فرخ نے شوکتِ لفظی کے ذریعہ اپنی شاعری کو کبھی لباسِ فاخرہ نہیں پہنایا، البتہ ضرورتاً پرشکوہ الفاظ کا استعمال ضرور کیا، لیکن یہ سب کچھ فطری رو میں ہوا۔ ’’ابہام‘‘ اور ’’ایہام‘‘ یقیناًعصر حاضر کی شاعری میں رہا ہے اور وہ حسن فرخ کے یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ حسن فرخ نے کئی مقامات پر خصوصاً اپنے تغزل میں استعارات ، شعری پیکروں اور تلمیحی حوالوں کے وسیلہ سے معنیات کی افہام و تفہیم کی ہے ۔ ان کی اس تفہیم و تشریح میں آہنگ کی آب و تاب کا بھی بڑا حصہ ہے، جو ان کے تغزل کی پیمائش کو ارتفاع اور گہرائی عطا کرتی ہے۔ نظموں میں انہوں نے بعض نئے سوالات اٹھائے ہیں اور یہاں ’’غمِ کائنات‘‘ یعنی خارجی شاعری کو زیادہ اُبھارنے کی کوشش کی ہے، جس میں بڑی پیچیدگیاں بھی محسوس ہوتی ہیں اور تہہ داریاں بھی جھلکتی ہیں ، کبھی وہ سرگوشیاں بھی کرتے ہیں تو کبھی گھن گرج بھی سنائی دیتی ہے۔ آئیے اُن کے کلام سے حظ اٹھائیں۔ یہ کلام زیادہ تر ’’دوسری دستک‘‘ سے منتخب کیا گیا ہے، جس کو انہوں نے مجھے بڑے خلوص کے ساتھ ۱۲ ستمبر ۲۰۱۲ء کو عنایت فرمایا تھا۔ دیکھئے ! غزل کے وہ معرکۃ الآراء اشعار جن کو شہرۂ آفاق نقاد شمس الرحمن فاروقی نے سراہا ہے:
کبھی پتھر بھی پانی بن کے آنکھوں سے برستا تھا
مگر اب تو دھڑکتا دل بھی پتھر بن گیا اپنا
بیزار ہوں میں شدتِ جلوت سے ان دنوں
پھر بھی یہ دعا ہے وہ مجھ سے جدا نہ ہو
کیوں قریب کی گھڑیوں میں تھی بے نام اُداسی
تنہائی میں اب کیوں ہمیں آرام بہت ہے!
شمس الرحمن فاروقی جیسا تنقیدنگار حسن فرخ کی نظموں میں میرا جی کے آہنگ کی جھلک اور جھنک کی سماعت کرتا ہے۔ ان کی نظم ’’فنا ہی بقاء ہے‘‘ ایک عارفانہ اقدار کی بولتی تصویر ہے
تباہی تباہی ، تباہی کا ہر پھل گلستاں گلستاں؍ یہی کھوج ہے
لمسِ جاں کی ، یہی کھوج ہے خود ہی گم قطرہ جاں؍ دھڑکتا ہوا
دل ہے اوجِ زماں و مکاں ، آئینہ جس میں ہر آن لمحوں کی
سرگوشیاں؍ زمانے کو معلوم تھی سر ٹپکنے کی بے روح خشکی
سر پٹکنے کی، بے روح خشکی؍ زمانے کو معلوم ہے خود اپنے
توسط سے دل تک ، اور اس تک رسائی کی لیکن اسے سن گن
نہیں تھی اسے کوئی سن گن نہیں ہے اسے کیا خبر تھی مری
انتہا اور بنیاد اثبات ہے ، کیوں کہ مرے سواء کوئی موجود کب
ہے؍ کہاں ہے، کہاں ہے؍ مری انتہا اور بنیاد اثبات کی، ہاں
اسے کیا خبر ہے؍ کہ بس، میں ہی موجود ہوں؍ یہاں ہوں،
یہاں ہے؍ یہاں تو بس ایک نور بے سایہ تھا، نور بے سایہ ہے
مظہر بے گماں کا یقیں ہے؍ جلال و جمال دعاء اثر ہے اگر تو، یہی
ہے، یہی ہے؍ یہیں ہے؍ میں موجودگی دے رہا ہوں
شہادت ، وجود انا سے شہودِ حواس و نواسے ؍ صفات اب تک
معدوم ہیں ذات ہی ذات موجود ہے
اس نظم میں ذات و صفات ، وجود و عدم ، جلال و جمال، مبتدا و خبر ، نور و ظلمات جیسے تمام صوفیانہ افکار کا احاطہ کرلیا گیا ہے۔ اب کیسے یقین کرلیں کہ یہ حسن فرخ کی نوائے عارفانہ ہے جو تغزلِ عاشقانہ کا مغنی بھی تھا اور ’’رفتارِ سیاست‘‘ میں بے لاگ خامہ فرسائی بھی کرتا تھا۔ یہی اُن کی ہمہ جہت شخصیت کی آئینہ داری ہے، جس کا احاطہ کرنے کے لیے ایک مختص مضمون متحمل نہیں ہوسکتا، بلکہ ان پر باضابطہ تحقیقی کام ہونا چاہیے۔ محترم سید وقار الدین صاحب مدیر اعلیٰ رہنمائے دکن اُن کے بڑے قدرداں تھے۔ مسعود انصاری صاحب شریک مدیر کے تو وہ دستِ راست تھے، نثری ترجمہ کے علاوہ انھوں نے شعری ترجمے بھی کیے تھے۔ خواجہ عثمان ہارونی کی مشہور فارسی غزل ’’پیش یار می رقصم‘‘ کا اردو ترجمہ بڑی خوبی سے کیا تھا، جس کے دوچار شعر ملاحظہ ہوں:
تو وہ قاتل، تماشے کو بہاتا ہے لہو میرا
میں وہ بسمل کہ زیر خنجر خوں خوار ہوں رقصاں
تماشہ دیکھ جاناں ، بھیڑ جانبازوں کی ہے، جس میں
بصد سامانِ رسوائی سرِ بازار ہوں رقصاں
جی تو چاہتا ہے کہ ’’اصل‘‘ اور ’’ترجمہ‘‘ دونوں کو پیش کردیا جائے، تاکہ یہ معلوم ہو کہ کس محنت اور جتن سے حسن فرخ نے ایمانداری کے ساتھ یہ ترجمہ کیا ہے۔ مصنف سے زیادہ مصیبت مترجم پر آتی ہے کہ اس کو اصلیت برقرار رکھنی پڑتی ہے اور یہ بات اہل علم خوب جانتے ہیں غزل کے یہ شعر دیکھئے ، کتنے رواں ہیں اور اسی کے ساتھ معنویت کا بہاؤ بھی قابل قدر ہے:
دور چلتے رہے ، اشک ڈھلتے رہے
ہم تو جلتے رہے ، روشنی کی طرح
لمحہ لمحہ بکھرتے سمٹتے ہیں ہم
زندگی کی طرح روشنی کی طرح
جیسا کہ کہا گیا ہے حسن فرخ کو دو چار صفحات میں سمونا مشکل ہے، ایک سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے ۔ جہاں تک شاعر، صحافی، مترجم کا معاملہ ہے یہ اُن کا فن تھا، لیکن اُن کی شخصیت بھی اُن کے فن کی طرح بڑی دلکش تھی۔ بڑے مرنجان مرنج طبیعت کے حامل تھے۔ تواضع و انکساری کا پیکر تھے۔ جب بھی رہنمائے دکن کے ایڈیٹوریل سیکشن میں داخل ہوتا اور نظر پڑتے ہی وہ اپنی نشست سے اٹھ کر سلام کا جواب دیتے ، حالانکہ وہ مجھ سے عمر میں بڑے تھے، لیکن تھے بڑے قدردان!!
اُن ہی کے شعر پر مضمون ختم کرنا چاہوں گا۔
میں خیریت سے ہوں، میں اکیلا سہی حسن
جو تھی بلائے جاں ، مرے سر سے اتر گئی –
———–
Dr.Mohi Uddin Habibi